شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے ایک دوسرے پر لفظی وار
بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں اقلیتوں کے حقوق اور سرحد پار دہشت گردی کے معاملے پر بحث کی اور بغیر نام لیے ایک دوسرے پر تنقید کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چین جہاں 2001 میں شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا، اس کے صدر شی جن پنگ نے بحران سے دوچار دنیا کو وسیع طریقے سے دیکھنے اور اس کو درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے اقدامات کی وضاحت کی۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے رواں برس ایس سی او کے صدر کی حیثیت سے ویڈیو کانفرنس کی میزبانی کی، انہوں نے پاکستان کا نام لیے بغیر سرحد پار دہشت گردی کے بھارتی الزامات کو دہرایا۔
نریندر مودی نے شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان پر زور دیا کہ وہ سرحد پار دہشت گردی کی مذمت کریں اور ایسا نہ کرنے کو دوہرے معیار کے مترادف قرار دیا، اس تناظر میں بھارتی وزیراعظم کا بے نام ہدف چینی صدر شی جن پنگ تھے۔
نریندر مودی نے پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے معاملے پر بھی چین اور پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ کنیکٹیویٹی منصوبوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے ایس سی او رکن ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنا ضروری ہے۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ سی پیک منصوبے کا ایک حصہ اس خطے سے گزرتا ہے جسے وہ متنازع قرار دیتا ہے، انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کے رہنماؤں چینی صدر شی جن پنگ، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے کہا کہ دہشت گردی علاقائی اور عالمی امن کے لیے بڑا خطرہ بن چکی ہے، اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، چاہے وہ دہشت گردی کسی بھی شکل یا کسی بھی قسم کی ہو، اس سے قطع نظر ہمیں اس کے خلاف جنگ کےلیے متحد ہونا چاہیے۔
بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ کچھ ممالک سرحد پار دہشت گردی کو اپنی پالیسیوں کے آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، وہ ملک دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں، شنگھائی تعاون تنظیم کو ایسی قوموں پر تنقید کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، اس طرح کے سنگین معاملات پر دوہرے معیار کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
صدر شی جن پنگ نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا شنگھائی تعاون تنظیم کے نویں رکن کی حیثیت سے خیرمقدم کیا، جنوبی ایشیائی حریفوں سے توجہ ہٹاتے ہوئے انہوں نے رکن ممالک کے درمیان سیاسی تنازعات کو حل کرنے کے لیے تعاون پر توجہ مرکوز کی۔
انہوں نے حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ’رنگین انقلابات‘ کے خلاف بھی خبردار کیا اور کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کو بغاوت کرنے کی بیرونی کوششوں کی مزاحمت کرنی چاہیے۔
شی جن پنگ نے زور دے کر کہا کہ باہر سے مداخلت کرنے کی کسی بھی کوشش اور کوئی بھی بہانے رنگین انقلابات لانے کی حوصلہ افزائی کرنے کے اقدامات کی واضح طور پر مخالفت کرنا ضروری ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کشمیر کی صورتحال کے تناظر میں کہا کہ دہشت گردی کی تمام شکلوں اور اقسام کی واضح اور غیر مبہم الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے، ایس سی او رکن ممالک کے خطے میں امن اور استحکام کو یقینی بنانے کے مشترکہ مفادات ہیں جب کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں معاشی ترقی کے لیے پیشگی شرط ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے معاملے پر ڈپلومیٹک پوائنٹ اسکورنگ نہیں ہونی چاہیے اور ریاستی دہشت گردی سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرنی چاہیے کیونکہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔
شہباز شریف نے سیاسی ایجنڈے کے تحت مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی بھی مذمت کی، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی، انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، خطے میں پائیدار امن تنظیم کے تمام رکن ممالک کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی مدد کے لیے آگے بڑھے کیونکہ پُرامن اور مستحکم افغانستان خطے میں معاشی استحکام کا باعث بنے گا اور یہ شنگھائی تعاون تنظیم کے مقاصد کے حصول کے لیے بھی ضروری ہے۔