دنیا

بھارت: مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت 11 جولائی سے شروع

بھارتی چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چندراچد سمیت 5 رکنی بینچ سماعت کرے گا، جس کا مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ نے خیرمقدم کیا، رپٌورٹ

بھارت کی سپریم کورٹ میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے لیے دائردرخواستوں پر سماعت 11 جولائی سے شروع ہوگی۔

بھارتی سپریم کورٹ سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ سماعت کرنے والا 5 رکنی بینچ بھارتی چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چندراچد، جسٹس سجنے کشان کول، جسٹس سجنیو کھنہ، جسٹس بی آر گیوائی اور جسٹس سوریا کانت پر مشتمل ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں دائر 20 سے زائد درخواستوں میں بھارتی حکومت کی جانب سے اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے لیے کیے گئے فیصلے کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھایا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ آئینی شقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے۔

دی ہندو نے رپورٹ میں بتایا کہ درخواست گزاروں نے مقدمے کی فوری سماعت کے لیے 17 فروری کو بھی درخواست دی تھی اور بھارتی چیف جسٹس نے سماعت کے لیے مخصوص تاریخ دینے پر اتفاق کیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ آرٹیکل 370 کے حوالے سے مقدمہ سپریم کورٹ میں 2 سال سے زیر التوا ہے اور مارچ 2020 میں 5 رکنی بینچ کی جانب سے لارجر بینچ کے لیے ریفر کرنے سے انکار کے بعد دوبارہ مقرر نہیں کیا گیا۔

بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ نے خیرمقدم کیا۔

عمر عبداللہ نے ٹوئٹ کیا کہ مجھے پرامید ہوں کہ سماعت اب بہت جلد شروع ہوگی۔

محبوبہ مفتی نے امید ظاہر کی کہ انصاف کا بول بالا ہوگا اور جموں و کشمیر کے عوام کے لیے انصاف کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 پر سپریم کورٹ کا فیصلہ برقرار ہے کہ یہ شق صڑف اسی صورت میں ختم ہوسکتی جب جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اس کی تجویز دے۔

دوسری جانب مقبوضہ جموں و کشمیر کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ترجمان الطاف ٹھاکر نے کہا کہ بھارتی پارلیمنٹ نے آرٹیکل 370 قانونی طریقے سے ختم کیا تھا اور جو لوگ اس معاملے کو عدالتوں میں لے جانا چاہتے ہیں وہ جاسکتے ہیں، ان کے لیے راستا کھلا ہوا ہے۔

بھارتی خبرایجنسی اے این آئی کو انہوں نے بتایا کہ آرٹیکل 370 پہلے ہی مردہ ہوچکا ہے اور مردوں کو دوبارہ نہیں لایا جاسکتا ہے۔

یاد رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا، جس کے تحت بھارت کے دیگر شہروں کے لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیدادیں حاصل کرنے اور مستقبل رہائش کی اجازت حاصل ہوگئی ہے۔

آرٹیکل 370 کے باعث بھارت کی پارلیمنٹ کے پاس دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ ریاست میں قوانین نافذ کرنے کے محدود اختیارات تھے۔

بی جے پی کے اس فیصلے کو کشمیری عوام، عالمی تنظیموں اور ہندو قوم پرست حکمران جماعت کے ناقدین نے مسلم اکثریتی خطے کو ہندو آبادکاروں کے ذریعے شناخت تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔

واٹس ایپ پر ڈیٹا ٹرانسفر کا سب سے آسان فیچر پیش

پاکستانی کوہ پیما آصف بھٹی نانگا پربت میں پھنس گئے

آسٹریلیا ڈپریشن کا علاج نشہ آور ادویات سے کرنے کی اجازت دینے والا پہلا ملک