پاکستان

نماز عید کی امامت کرکے مولانا عبدالعزیز نے ایک بار پھر حکام کو چیلنج کردیا

پابندی کے باوجود امامت کرنے کا پیشگی علم ہونے کے باوجود حکام نے انہیں روکنے کے لیےکارروائی کی اور نہ ہی گرفتار کرنے کی کوئی کوشش کی۔

گرفتاری سے بچنے کے صرف ایک ہفتے بعد مولانا عبدالعزیز پابندی کے باوجود لال مسجد میں نماز عید کی امامت کرنے میں کامیاب رہے جبکہ پولیس اور دارالحکومت کی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دارالحکومت کے وسط میں واقع مشہور لال مسجد میں عید کی نماز کی امامت کے منصوبے کا پیشگی علم ہونے کے باوجود حکام نے انہیں نماز کی امامت سے روکنے کے لیے نہ تو کوئی کارروائی کی اور نہ ہی گرفتار کرنے کی کوئی کوشش کی۔

مولانا عبدالعزیز نے منگل کو لال مسجد میں نماز عید کی امامت کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اسپیشل برانچ کے ذرائع کے مطابق مولانا صبح 5 بج کر 25 منٹ پر لال مسجد پہنچے اور 5 بج کر 30 منٹ پر اعلان کردہ وقت پر خطبہ شروع کیا اور صبح 6 بجے نماز ختم کی۔

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت متعدد مقدمات کا سامنا کرنے کے باوجود ریاست کی عدم فعالیت اور مولانا کو مسجد میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے سوال کا جواب نہیں دیا۔

جب اسلام آباد کیپیٹل ایڈمنسٹریشن (آئی سی ٹی) کے متعدد سینئر افسران سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس معاملے پر بے بسی کا اظہار کیا۔

ایک افسر نے کہا کہ ’ہم کیا کر سکتے ہیں‘، ہم اعلیٰ حکام سے منظوری کے بعد ہی کارروائی کر سکتے ہیں کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔

اسی طرح کے خیالات کا اظہار اسلام آباد پولیس کے ایک اور اعلیٰ افسر نے بھی کیا اور کہا کہ وہ وہاں صرف اعلیٰ افسران کے احکامات پر عملدرآمد کے لیے موجود ہیں۔

پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ ’تاہم ممکنہ طور پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا کیونکہ حکام عید کے دن کوئی تماشا نہیں بنانا چاہتے تھے اور اس سے اسلام آباد کے رہائشیوں کے لیے پریشانی پیدا ہوتی‘۔

مولانا عبدالعزیز نے اپنے خطبے میں شریعت کے نفاذ کے مطالبے کا اعادہ کیا اور ان لوگوں اور ممالک کے خلاف جہاد کرنے پر زور دیا جو قرآن پاک کا احترام نہیں کرتے اور انبیا کی توہین کرتے ہیں۔

ڈان سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز نے 2009 میں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود مسجد میں ان کے داخلے پر پابندی عائد کرنے پر حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ ’عدالت نے وفاقی حکومت کو لال مسجد سے ملحقہ جامعہ حفصہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ہدایت بھی کی تھی لیکن وفاقی حکومت، وزارت داخلہ اور نہ ہی کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے سپریم کورٹ کی ہدایت کو چیلنج کیا اور نہ اس سے اتفاق کیا، تو یہ وہی ہیں جو شرائط کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔‘

مولانا عبدالعزیز 60 سال کی عمر پانے کے بعد بھی لال مسجد کے خطیب کے طور پر بحال ہوگئے ہیں، انہیں دسمبر 2014 میں متنازع خطبہ دینے کے بعد مسجد کی امامت سے معزول کر دیا گیا تھا جس میں انہوں نے آرمی پبلک اسکول، پشاور کے مجرموں کا دفاع کیا تھا۔

اس کے علاوہ جامعہ حفصہ کی طالبات اور مولانا عزیز کی شریک حیات ام حسان ایسی ویڈیوز جاری کر رہی تھیں جن میں انہیں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت دہشت گرد گروہوں کی کھلے عام حمایت کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

رواں برس 21 جون کو مولانا عبدالعزیز ظہر کی نماز کی امامت کے بعد مسجد سے باہر نکلے تو ان کے محافظوں کی جانب سے پولیس کے خلاف مزاحمت کے بعد گرفتاری سے بچ گئے تھے، اس کے فوراً بعد جامعہ حفصہ کی طالبات نے مولانا کی گرفتاری کی کوشش کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جناح ایونیو اور کلثوم پلازہ کے قریب پُل سمیت سڑکیں بلاک کر دی تھیں۔

ٹوئٹر پر ٹوئٹس پڑھنے کی حد مقرر، ایلون مسک کا نئی پالیسی کا اعلان

آئی ایم ایف معاہدے کے بعد کاروباری برادری کو سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونے کی امید

افغانستان میں مسلح گروپس کی عدم موجودگی کا امریکی بیان ’حقیقت کا اعتراف‘ ہے، طالبان