ایک لاکھ 30 ہزار پناہ گزینوں کو دوبارہ آبادکاری کی ضرورت ہوگی، اقوامِ متحدہ
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کی ایک تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ تقریباً ایک لاکھ 34 ہزار مہاجرین اور پناہ گزینوں کو، جن میں سے تقریباً سبھی افغانستان سے ہیں، کو 2024 میں پاکستان میں دوبارہ آباد ہونے کی ضرورت ہوگی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’پروجیکٹڈ گلوبل ری اسیٹلمنٹ نیڈز اسسمنٹ برائے 2024‘ کے مطابق یو این ایچ سی آر اگلے سال کے لیے عالمی پناہ گزینوں کی دوبارہ آبادکاری کی ضروریات میں 20 فیصد اضافے کی توقع کرتا ہے۔
پاکستان، ایران، بنگلہ دیش، اور ملائیشیا، ایشیا پیسفک خطے میں پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے سب سے بڑے ممالک ہیں اور پناہ گزینوں کے ردعمل میں ذمہ داری کے اشتراک اور ٹھوس تعاون کی ضرورت کو بار بار اجاگر کرتے رہے ہیں۔
پناہ گزینوں کے لیے تیسرے ملک کے حل کو 2022 میں نمایاں طور پر وسعت دی گئی، جس میں خطے کے سب سے بڑے میزبان ممالک میں طویل ترین حالات میں رہنے والے سب سے زیادہ خطرے والے پناہ گزینوں کے لیے دوبارہ آبادکاری کے مضبوط پروگرام شامل ہیں۔
اس وقت افغانستان سے 52 لاکھ افراد پناہ گزین کے طور پر یا خطے میں پناہ گزین جیسی صورتحال میں رہ رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ زیادہ تر افغان بڑے میزبان ممالک، پاکستان اور ایران میں مقیم ہیں، جو کہ اپنے ملک انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے متاثر ہیں اور 2023 کے آخر تک یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔
پاکستان مہاجرین کی میزبانی کرنے والا ملک
پاکستان بدستور پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے، جو 30 لاکھ سے زائد افغانوں کو پناہ دیتا ہے تاہم پاکستان 1951 کے کنونشن یا اس کے 1967 کے پروٹوکول کا دستخط کنندہ نہیں ہے اور اس کے پاس قومی پناہ کا نظام نہیں ہے۔
البتہ پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کو تحفظ اور امداد کی فراہمی عام طور پر بین الاقوامی معیارات اور پاکستان کی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کے تحت ہے۔مہاجرین کو زبردستی واپس نہ بھیجنے کے اصول اور پناہ کے حق کا بڑی حد تک احترام کیا جاتا ہے اور 1993 کے تعاون کے معاہدے میں یو این ایچ سی آر کے کردار کو تسلیم کیا گیا ہے۔
یو این ایچ سی آر پاکستان کا کہنا ہے کہ خطرے سے دوچار اور واحد والدین والے گھرانوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو مناسب تحفظ اور اپنی کفالت کے ذرائع سے محروم ہیں۔