دنیا

سویڈن: مسجد کے باہر احتجاج کی اجازت ملنے پر شہری نے قرآن پاک کے اوراق نذر آتش کردیے

ترک وزیرخارجہ نے اسٹاک ہوم میں مسجد کے باہر ہونے والے احتجاج کی شدید مذمت کی اور شہریوں کی جانب سے بھی اس سے پاگل پن قرار دیا گیا، رپورٹ

سویڈن کی پولیس کی جانب سے عیدالاضحیٰ کے موقع پر ایک شہری کو اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر احتجاج کی اجازت دی گئی، جس کے بعد انہوں نے قرآن پاک کے اوراق جلا دیے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ موجودہ قوانین کے تحت اوراق جلانے کی حرکت سے جڑے خطرات کی نوعیت ایسی نہیں تھی جس کی وجہ سے درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ کیا جاتا۔

رپورٹ کے مطابق برسوں پہلے عراق سے سویڈن منتقل ہونے والے 37 سالہ سالوان مومیکا نے پولیس سے کہا تھا کہ وہ ان کے ’قرآن پاک سے متعلق اپنے خیالات کے اظہار کے لیے‘ اس حرکت کی اجازت دے۔

سالوان مومیکا نے مقامی خبرایجنسی کو بتایا کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کی اہمیت بھی اجاگر کرنا چاہتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ جمہوریت ہے، اگر ہمیں کہا جائے کہ آپ یہ نہیں کرسکتے ہیں تو یہ خطرناک ہوگا۔

پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی اور درجنوں مخالفین کی جانب سے عربی میں نعرے لگائے جا رہے تھے لیکن سالوان مومیکا میگافون کے ذریعے موجود لوگوں سے مخاطب تھا۔

موقع پر موجود خبرایجنسی کے نمائندے کے بتایا کہ سویڈن کا پرچم لہراتے ہوئے اس نے قرآن پاک کے چند اوراق جلائے۔

پولیس نے مذکورہ شہری اور مظاہرین کو الگ کرنے کے لیے مسجد سے متصل پارک میں پورے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔

مسجد کے امام محمود خلفی نے کہا کہ مسجد کے نمائندوں نے پولیس کی جانب سے مسلمانوں کے مقدس دن عیدالاضحیٰ کے موقع پر احتجاج کی اجازت دینے کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کو کم از کم احتجاج کا مقام مسجد سے دوسری جگہ منتقل کردینا چاہیے تھا جو قانونی لحاظ سے ممکن تھا لیکن انہوں نے ایسا کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔

’یہ پاگل پن ہے‘

اسٹاک ہوم سے تعلق رکھنے والے 32 سالہ آرٹسٹ ناؤ اومران نے اس احتجاج کو ’مکمل پاگل پن‘ قرار دیا۔

خاتون نے بتایا کہ ان کی والدہ مسلمان تھی اور کہا کہ جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر نفرت پھیلانے کا بہانہ ہے اور یہ آزادی اظہار نہیں ہے۔

ایک سماجی کارکن لوٹا جان نے کہا کہ اس طرح اوراق جلانے کے عمل کو برداشت نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اتنا کہیں گے کہ اس کو روک دیں، دوسروں کو یوں تنگ کرنا مناسب نہیں ہے۔

پولیس کی جانب سے احتجاج کی اجازت سویڈن کی عدالت کی طرف سے اسٹام ہوم میں اسی طرح کے دو مظاہروں کی اجازت دینے سے انکار کے فیصلوں کو مسترد کرنے کے دو ہفتے بعد دی گئی ہے۔

اس حوالے سے پولیس نے اس وقت سیکیورٹی کے خدشات ظاہر کیے تھے اور جنوری میں ترک سفارت خانے کے باہر ہونے والے واقعے کا ذکر کیا تھا، جس کے بعد کئی ہفتوں تک احتجاج جاری رہا تھا اور ساتھ ہی سویڈن کی مصنوعات کا بائیکآٹ کرنے اور سویڈن کی نیٹو رکنیٹ کی حمایت واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ادھر ترک وزیرخارجہ ہاکان فیدان نے بیان میں آج پیش آنے والے واقعے کی شدید مذمت کی

یاد رہے کہ رواں برس جنوری میں ڈنمارک اور سویڈن سے تعلق رکھنے والے انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان راسمس پلوڈان نے سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں قائم ترکیہ کے سفارت خانے کے باہر احتجاجی مظاہروں کا اجازت نامہ جاری کیے جانے کے بعد احتجاج کیا تھا۔

احتجاج کے دوران راسمس پلوڈان نے اسلام پر شدید تنقید اور گالم گلوچ کرنے کے بعد قرآن پاک کو نذر آتش کیا تھا، انہوں نے مظاہرین سے کہا تھا کہ اگر آپ نہیں سمجھتے کہ آزادی اظہار رائے ہونا چاہیے تو آپ کو کہیں اور رہنا چاہیے۔

راسمس پلوڈان کے احتجاج کی سیکیورٹی میں پولیس کی بھاری تعداد شامل تھی جب کہ اس موقع پر صحافیوں کی بڑی تعداد سمیت تقریباً 100 کے قریب لوگوں نے اسٹاک ہوم میں ترکیہ کے سفارت خانے کے باہر موجود تھے۔

راسمس پلوڈان کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی اور اسلام مخالت نعرے لگانے پر ترکیہ سمیت دیگر کئی ممالک نے ردعمل دیتے ہوئے واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمتی کی ہے۔

کیا پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے کیلئے بھارت جائے گی؟

ایشز: دوسرے ٹیسٹ کے دوران ماحول دوست کارکن میدان میں داخل، کھلاڑیوں کی دوڑیں

یوکرینی شہر پر روسی حملہ، کم عمر جڑواں بہنوں سمیت 10 افراد ہلاک