عازمین حج رمی اور قربانی کے فریضے کی انجام دہی میں مصروف
کورونا کی وبا کے بعد پابندیوں کے بغیر انجام دیے جا رہے سب سے بڑے حج کے موقع پر لاکھوں عازمین حج شیطان کو کنکریاں مار کر رمی کا فریضہ انجام دینے کے بعد قربانی کر رہے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق صبح سے لاکھوں عازمین نے حج کے اہم رکن کی ادائیگی کرتے ہوئے منیٰ واپس آکر جمرات کے مقام پر شیطان کو کنکریاں مار کر رمی کا اہم فریضہ انجام دیا۔
گزشتہ روز خطبہ حج کے بعد عازمین نے مسجد نمرہ میں ظہر اور عصر کی نماز ادا کی اور مغرب کے بعد تک میدان عرفات میں قیام کے بعد مزدلفہ کی راہ لی۔
عبادات، دعا، مناجات اور تلبیہ کی صداؤں سے بھرپور اس روح پرور فضا میں عازمین نے مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے رات بسر کی اور صبح ہوتے ہی رمی کی ادائیگی کے لیے جمرات کی جانب کوچ کیا۔
جمرات کے مقام پر تین شیطانوں کو کنکریاں مارنے کا عمل ’رمی‘ کہلاتا ہے جو حج کے اہم مناسک میں سے ایک ہے اور رمی کے بعد عازمین قربانی کا فریضہ انجام دیتے اور پھر بال منڈوا کر احرام کھول دیتے ہیں۔
حجاج کرام 48 ڈگری سینٹی گریڈ کے شدید گرم موسم میں میدان عرفات میں عبادت کرنے کے ایک دن بعد مکہ کے قریب منیٰ پہنچے۔
تیونس سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ فرح نے کہا جب تک کہ سردیوں میں حج نہ آجائے، میں دوبارہ حج کرنے کے بارے میں نہیں سوچوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میرا پورا بدن پگھل رہا ہے۔
ابتدائی طور پر یہ قیاس ظاہر کیا گیا تھا کہ اس حج میں کووڈ سے قبل 2019 میں کیے گئے حج سے زیادہ تعداد میں افراد شریک ہوں گے جب وبا سے قبل آخری حج میں تقریباً 25 لاکھ زائرین نے حج کی سعادت حاصل کی تھی، لیکن منگل کو سعودی حکام کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار اس سے انتہائی کم ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اس سال 18 لاکھ سے زائد عازمین نے حج کی سعادت حاصل کی۔
حج سعودی عرب کے لیے ایک سعادت کے ساتھ ساتھ آمدنی کا بھی بڑا ذریعہ ہے جہاں تیل پر انحصار کرنے والا عرب ملک معیشت کو سیاحت سمیت نئی جہتوں کی جانب موڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔
شیطان کو کنکریاں مارنے کے ساتھ ہی عیدالاضحیٰ کی سہ روزہ چھٹی کا آغاز ہوتا ہے اور ان ایام میں مسلمان مویشیوں کو خرید کر ذبح کرتے ہوئے سنت ابراہیمیؑ ادا کرتے ہیں۔
اس کے بعد حجاج طواف وداع کے لیے مکہ واپس آتے ہیں۔
حفاظتی انتظامات
منیٰ کے راستے ماضی میں جان لیوا ثابت ہوئے ہیں، 2015 میں حج کے دوران بھگدڑ مچنے سے 2300 عازمین شہید ہو گئے تھے، 2006 میں پیش آنے والے اسی طرح کے ایک واقعے میں 364 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس سے قبل 1998 اور 2004 میں بھی بھگدڑ مچنے کے واقعات پیش آئے تھے، 1990 میں ایک سرنگ میں وینٹیلیشن سسٹم کے نتیجے میں بھی بھگدڑ مچنے سے 1426 زائرین شہید ہو گئے تھے۔
2015 کے بعد سے ایسا کوئی بڑا واقعہ دوبارہ رونما نہیں ہوا اور اس جگہ پر حجاج کرام کی آسانی کے لیے ایک کثیرالمنزلہ پُل تعمیر کیا گیا ہے۔
بدھ کے روز، ہیلی کاپٹر فضا میں پرواز کرتے رہے اور سینکڑوں پولیس اہلکار عازمین کے بہاؤ کو منظم کرنے کے لیے منیٰ کی سڑکوں پر چوکس کھڑے نظر آئے۔
بھیڑ کے ساتھ ساتھ شدید گرمی بھی 160 ممالک کے عازمین کے لیے بڑا چیلنج رہی ہے، حالیہ برسوں میں حج کا سیزن سعودی عرب کے جھلسا دینے والے موسم گرما میں آیا ہے اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے صحرا کی آب و ہوا مزید گرم ہو گئی ہے۔
منگل کو 48 ڈگری سینٹی گریڈ نے اسے اس سال حج کا گرم ترین دن بنا دیا ہے، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس صدی کے آخر تک سعودی عرب میں 50 ڈگری درجہ حرارت ایک عام بات ہو سکتی ہے۔
گرمی اور دھوپ کی تپش سے خود کو بچانے کے لیے بہت سے حجاج چھتریاں سر پر تانے چلتے نظر آئے جب کہ کچھ اپنے سروں پر جائے نماز اٹھائے ہوئے تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ 32 ہزار سے زائد ہیلتھ ورکرز ہیٹ اسٹروک یا دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد کے علاج کے لیے موجود ہیں جبکہ پانی کی بوتلیں مفت تقسیم کی جا رہی ہیں۔
منگل کو عرفات سے باہر نکلتے ہوئے 56 سالہ مصری ملازم صبحی سعید نے کہا کہ وہ بہت پرجوش تھے لیکن حج ختم ہونے کے ساتھ ہی ہمت بھی جواب دے گئی ہے، میں بہت تھک گیا ہوں اور مجھے پانی کی بہت زیاد کمی محسوس ہوتی ہے۔