’مداری‘۔۔۔ کراچی کی جھلک دکھاتی فلم
پیار کی مٹھاس سے لتھڑے لہجے میں حکم دیتا مداری، ایک ہاتھ میں ڈراتی چھڑی دوسرے میں نچاتی ڈگڈگی، کچھ سمجھے بغیر اس کے لفظوں کی پیروی کرتا چھوٹا سا بندر، جس کے چہرے پر معصومیت اور وحشت گھل مل گئی ہیں اور دیوانگی کے عالم میں بندر کی نقل کرتا ایک خوب رو قدآور نوجوان۔
یہ ابتدائیہ ہے فلم ’مداری‘ کا۔ عید الاضحیٰ پر سنیماؤں کی زینت بننے والی ’مداری‘ کا آغاز کرتا یہ خالصتاً علامتی منظر فلم کے نام کی طرح اپنے اندر کہانی کا مرکزی خیال سموئے ہوئے ہے۔ یہ علامتی اظہار ذہن کو بوجھل کردیتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ ہم اسکرین پر علامات، استعارات اور ابہام کے کُہرے میں لپٹی کسی ’کافکائی کہانی‘ میں قدم رکھ رہے ہیں، لیکن اگلے ہی لمحے کرداروں کی صورت کراچی کا عام آدمی اپنی روزمرہ کی زبان، بولی ٹھولی، رہن سہن اور مصائب سمیت پردے پر نمودار ہوتا ہے اور کہانی کراچی کی پس ماندہ بستیوں کی تنگ گلیوں سے ہوتی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔
’مداری‘ کراچی کا قصہ ہے۔ یہ انسانوں سے چھلکے پڑتے اس شہر میں سیاست اور جرم کے بھید بھرے ملاپ سے وجود میں آنے والی خونیں حکایت بڑے سرسری انداز میں، بڑی احتیاط سے اور نہایت اختصار کے ساتھ اور ڈرتے ڈرتے سناتی ہے، مگر چلیے کسی نے اس شہر کا درد کسی طور بیان کرنے کی کوشش تو کی!
فلم کے ہدایت کار سراج السالکین ہیں، کہانی بھی سراج نے لکھی ہے جس میں ان کے شریک لکھاری علی رضوی ہیں، جب کہ بہ طور فلم ساز بھی شریک کار ہیں۔
کہانی کا موضوع ’انتقام‘ نہایت روایتی ہے لیکن کراچی میں عشروں جاری رہنے والی سیاست سے جُڑت اس موضوع کو نیا پن عطا کردیتی ہے۔ مرکزی کردار حارث قدیر کا باپ، جو ایک سیاسی جماعت سے وابستہ تھا، قتل کردیا گیا ہے جس کے قتل کا منظر فلیش بیک میں باربار دکھایا جاتا ہے۔ اپنے چچا، چچی اور ان کے کم سن بیٹے کے ساتھ رہنے والے حارث پر اس قتل کے فطری اثرات مرتب ہوتے ہیں اور شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر وہ چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث ہوجاتا ہے۔ چچا کی ڈانٹ ڈپٹ اس کے سیاہ وسفید میں بٹی شخصیت کا رُخ مثبت طرزفکر کی طرف کرتی ہے اور وہ جرم کی دنیا سے منہ موڑ کر ملازمت کی تلاش میں جُت جاتا ہے، لیکن مداری سی زندگی اسے اپنے اشاروں پر چلانا چاہتی ہے، سو اتفاقیہ طور پر باپ کا قاتل اس کے سامنے آجاتا ہے، وہ بھی اس کے باس کے روپ میں اور حارث کا رُخ دوبارہ اجالے سے اندھیرے کی طرف ہوجاتا ہے۔
حارث کے بہ ظاہر سادہ سے نوجوان کے کردار کا وقتاً فوقتاً بہ طور تفریح کنگ کانگ کا روپ دھارنا اس کے اندر چھپے طوفان کی جھلک دکھاتا ہے۔ یہ ایک کم زور شخص کا اپنی بے بسی اور بے کسی پر بھڑاس نکالنے کا عمل ہے۔ اپنے کم عمر چچازاد کی فرمائش پر کھیل کھیل میں کنگ کانگ کا سوانگ رچاتے ہوئے ایک بار تو اس کے اندر کا درندہ پوری وحشت کے ساتھ باہر آجاتا ہے۔ یہ سوانگ اس کے لیے کھیل نہیں، اپنے دبے ہوئے غصے کا کتھارسس ہے یا مداری کے کرتب دکھاتے بندر کے طاقت اور دہشت کی علامت بن مانس بن جانے کی خواہش ہے۔ اس کے ذریعے شاید یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جرم اور سیاست کی دنیا میں کبھی کبھی بندر مداری کی رسی تڑاکر قابو سے نکل جاتا ہے، پھر تماشا دکھانے والے تباہی پھیلاتے بن مانس کی شکل میں اپنے تماشے کو تماشا بنتا دیکھتے ہیں۔ کردار کا یہ بہروپ اسے انفرادیت اور انوکھا پن بخشتا ہے۔
’مداری‘ کا ایک نہایت غیرروایتی وصف اس میں رومان اور ہیروئن کا نہ ہونا ہے۔ رومانوی تعلق اور ہیروئن کا تڑکا لگائے بغیر فلم بنانے کا تجربہ کرکے ہدایت کار وفلم ساز نے اپنی تخلیق کی ناکامی کا خطرہ مول لیا ہے مگر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دعووں ہی کی حد تک نہیں بلکہ واقعی وہ کچھ نیا کرنے کے آرزومند تھے۔ ایسے میں کامیابی اور ناکامی ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ تاہم پاکستان کی فلمی صنعت کے لیے وقت کا تقاضا ہے کہ فلمیں کامیاب ہوں، لوگ سنیما گھروں کا رُخ کریں اور فلمی صنعت پھلے پھولے۔ چناں چہ حالات کی ضرورت ہے کہ جو بھی تجربہ ہو وہ فلم بینوں کی دل چسپی بڑھائے۔ کسی نئی فلم پر تبصرہ وتنقید کرتے ہوئے بھی ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارے الفاظ لوگوں کو فلم دیکھنے کی طرف مائل کریں۔
اس فلم کی ایک خوب صورتی حقیقی لوکیشنز پر عکس بندی ہے۔ کہانی کا سفر کراچی کے افلاس زدہ علاقوں کے چھوٹے چھوٹے خستہ حال مکانوں، دم گھونٹتی گلیوں اور شور سے بھری سڑکوں کے مناظر کے ساتھ فاصلے طے کرتا ہے۔ مکانوں کی مشترکہ وسیع وعریض چھت پر درجنوں سوتے افراد کا فضائی منظر (Aerial shot) کمال کا ہے، جو لمحوں میں بیک وقت بے ڈھنگے پن سے بنی اونچی اونچی عمارتوں کے بیچ پھنسی گلیوں، گھروں کی تنگی اور گرمی میں حبس زدہ مکانوں کے جہنم بن جانے کی تصویر دکھا جاتا ہے۔
فلم میں لوکیشنز کی مدد سے مناظر کو حقیقی رنگ دینے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ پاکستانی فلموں کی روایت کے برعکس گولی کھاکر گرتے کرداروں کی اداکاری فطری اور خون اصلی رنگ میں دکھائی دیتا ہے۔ کرداروں کے مابین مکالمے بھی ان کے طبقاتی اور تعلیمی پس منظر اور ماحول سے پوری طرح مطابقت رکھتے ہیں۔ مکالمے برجستگی اور فطری انداز لیے ہوئے ہیں۔ البتہ کہیں کہیں مزاح پیدا کرنے کی کوشش میں ایسے فقرے لکھ دیے گئے ہیں جو نفیس طبیعتوں کو گراں گزرتے ہیں۔ ’آصف بلوچ‘ کا اپنے ساتھیوں سے کیا جانے والا ایک ’بے حد‘ بے تکلفانہ عملی مذاق اہل خانہ کے ساتھ فلم دیکھنے والوں کو نظریں چرانے پر مجبور کرسکتا ہے۔
ہر اداکار نے اپنا کردار بڑی خوبی سے نبھایا ہے، خاص کر عباد عالم شیر، پارس مسرور (چچا) آسیہ عالم (چچی) اور حماد صدیق (آصف بلوچ ) نے اپنے کرداروں سے پورا انصاف کیا ہے۔ آصف بلوچ کا کردار بڑا رنگارنگ ہے۔ جوش، اشتعال، شوخی، محبت، خلوص میں سے کوئی بھی رنگ اس کی شخصیت سے یوں چھلکنے لگتا ہے کہ وہ پورے کا پورا اس رنگ میں ڈوب جاتا ہے۔ حماد نے لب ولہجے، چہرے اور آنکھوں کے تاثرات سے اس کردار کی ادائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حارث کا کردار خاصا مشکل اور پیچیدہ تھا اس لیے اسے نبھاتے ہوئے عباد ایک آدھ جگہ اوورایکٹنگ کا شکار لگے۔
فلم کا سب سے کم زور کردار ’نئی آواز پارٹی‘ کے سربراہ وسیم احمد کا ہے، جسے اس کے کارکن ’پہلوان‘ کہتے ہیں۔ شہر کی مقبول جماعت کا یہ قائد اپنی وضع قطع، انداز اور اپنے پارٹی کے جلسے کے شرکا کی تعداد سمیت کسی بھی زاویے سے کراچی پر راج کرنے والی جماعت کا سربراہ نہیں لگتا۔ یہ وہ کردار تھا جسے ذرا سی توجہ سے بھرپور بنایا جاسکتا تھا۔ یہاں مجھے 1993ء میں نشر ہونے والے ڈرامے ’کشکول‘ میں طلعت حسین کا ادا کردہ ’عالی جاہ‘ کا کردار یاد آگیا، پراسراریت، رعونت، کروفر، اور ایک الگ سی شخصیت لیے کردار جسے یہ ڈراما دیکھنے والے آج بھی نہ بھول پائے۔
کئی مناظر میں کہانی اور ہدایت کاری کے جھول نہایت نمایاں ہیں۔ مثلاً حارث کے نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے چچا کا اپنے کم سن بیٹے کو تعلیم کے لیے امریکا بھیجنا اور پھر برسوں بعد چچا کا بیٹا عمر کے کسی تغیر کے بغیر دوبارہ دکھایا جاتا ہے، یہ ایک سنگین غلطی ہے۔
فلم میں دکھائے جانے والے انتخابات کے بارے میں نہیں بتایا گیا کہ یہ عام انتخابات ہیں یا ضمنی انتخاب۔ اگر عام انتخابات تھے تو کراچی کی مقبول جماعت کا قائد اپنی جماعت کے تمام نومنتخب نمائندوں کے ساتھ جماعتی دفتر یا اپنی رہائش گاہ پر جشن منانے کے بجائے صرف ایک منتخب نمائندے کے گھر پر کیوں خوشی منارہا تھا؟ سیاست پر فلم بناتے ہوئے ہمارے ملک کی سیاسی وانتخابی سرگرمیوں سے گہری واقفیت حاصل کرنا ضروری تھا۔
ان خامیوں کے باوجود ’مداری‘ کراچی کو پردہِ سیمیں پر پینٹ کرنے کی ایک اچھی اور قابل داد کوشش ہے جس کے ذریعے تجربہ اور کچھ نیا کر دکھانے کی ہمت کی گئی ہے۔ اس کوشش کو فلم دیکھ کر سراہنا چاہیے۔ بہرحال یہ فلم آپ کو کراچی کی تصویر دکھاتی ہے بہت چھوٹی، کٹی پھٹی اور دھند میں لپٹی تصویر، جس سے کچھ کچھ اندازہ ہوہی جاتا ہے کہ اس شہر کے باسیوں پر کیا گزری اور کیا گزر رہی ہے۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔