پاکستان

پاکستان کو قرض فراہمی کیلئے ’جلد‘ معاہدے کی کوشش کی جارہی ہے، آئی ایم ایف

بجٹ میں پاکستان نے ٹیکس نیٹ بڑھانے، سماجی اور ترقیاتی حوالے سے فیصلہ کن اقدامات کیے ہیں، آئی ایم ایف چیف مشن کا بیان
|

عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے پاکستان نے حالیہ دنوں میں فیصلہ کن اقدامات کیے ہیں اور مالی تعاون کے لیے معاہدے تک ’جلد‘ پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پاکستان میں آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستانی حکام نے گزشتہ چند دنوں میں آئی ایم ایف کے تعاون سے معاشی اصلاحات پروگرام کی روشنی میں پالیسیاں بنانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ان اقدامات میں پارلیمنٹ سے بجٹ کی منظوری ہے جس میں ٹیکس بیس کی توسیع کے علاوہ سماجی اور ترقیاتی اخراجات کے لیے دروازے کھولے ہیں، اس کے ساتھ بیرونی ایکسچینج مارکیٹ کی سرگرمیوں میں بہتری اور افراط زر اور ادائیگیوں کے توازن میں دباؤ کم کرنے کے لیے زری پالیسی سخت کرنا شامل ہے، جس سے خاص طور پر عام افراد زیادہ متاثر ہوتےہیں‘۔

ناتھن پورٹر نے کہا کہ ’آئی ایم ایف کی ٹیم کی جانب سے پاکستانی حکام کے ساتھ مسلسل تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے تاکہ مالی سپورٹ کے پروگرام پر جلد معاہدے تک پہنچیں‘۔

آئی ایم ایف سے 2.6 ارب ڈالر کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں، اسحٰق ڈار

وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت 2.6 ارب ڈالر کے حصول کے لیے راستے بنانے کی کوشش کر رہی ہے جو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے زیر التوا قرض پروگرام کا حصہ ہے۔

جیو نیوز کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ آئی ایم ایف کے نویں جائزے کی تمام تیکنیکی معاملات 9 فروری کو مکمل کردی تھیں، جبکہ یہ جائزہ ستمبر 2022 تک تھا۔

آئی ایم ایف سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے تھے کہ ہم 300 ارب ڈالر تک اقدامات کریں تو ہماری کوشش تھی کہ آدھا حصہ اپنے اخراجات میں کمی اور آدھا حصہ سرمایہ پر اقدامات کریں لیکن حتمی طور پر طے ہوا کہ 215 ارب کے ٹیکسز اور 85 ارب کے اخراجات کم کریں گے اور یہ سب کچھ ہوچکا ہے اور دونوں اطراف سے اس پر اتفاق ہے۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ نہ صرف معاملہ طے ہوگا بلکہ یہ میری فہرست ہے کہ نویں جائزے سے تقریباً ایک ارب ڈالر ملنے ہیں اور مجموعی طور پر پروگرام کے 2.6 ارب ہمیں نہیں ملے ہیں، دسواں جائزہ نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگلے ایک دو دن بہت اہم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہم ایسا کوئی راستہ نکالیں جس کے لیے ہمارے اجلاس مستقل ہو رہے ہیں اور میں کافی حد تک مطمئن ہوں اور امید ہے قوم کو اچھی خبر ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ کل تک ہمارے درمیان جو اعداد شمار کا تبادلہ ہوا ہے، اس کے مطابق امید ہے کہ ہم نواں جائزہ مکمل کریں گے اور ہم راستہ نکالیں گے کہ ہمیں نہ صرف نویں جائزے کے پیسے ملیں بلکہ بقایہ جات بھی پاکستان کو ملیں۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ اگر معاہدہ نہیں ہوا تو حکومت نے پلان بی تیار کرلیا ہے لیکن مزید تفصیلات سے آگاہ کرنا اس وقت قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔

وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کی جانب سے یہ بیان آئی ایم ایف کے ساتھ نویں جائزے کی تکمیل کے لیے ہونے والی مذاکرات کے بعد آیا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان نے 2019 میں 6.5 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت پر اتفاق کرلیا تھا اور 1.2 ارب ڈالر کی قسط باقی ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ نواں جائزہ گزشتہ برس اکتوبر میں مکمل ہونا تھا لیکن تاحال حکومت اس میں کامیاب نہیں ہوئی تاہم اب پر امید ہے اور اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے حال ہی میں آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملاقات ہوئی اور مسلسل رابطے جاری ہیں۔

آئی ایم ایف کے ساتھ مذکورہ معاہدہ 30 جون کو اختتام پذیر ہوگا لیکن نواں جائزہ مکمل نہیں ہوا اور دسویں جائزے کے تحت 1.4 ارب ڈالر بھی زیرالتوا ہیں۔

آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات

خیال رہے کہ 6.7 ارب ڈالر قرض پروگرام کی مدت 30 جون کو ختم ہو رہی ہے، اس سے قبل پاکستان کو 2 قسطوں کی مد میں تقریباً 2.2 ارب ڈالر حاصل کرنا ہیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے سے ساتویں اور آٹھویں مشترکہ جائزے کے بعد ایک ارب 16کروڑ ڈالر کی قسط یکم ستمبر 2022 کو موصول ہوئی تھی۔

آئی ایم ایف نے مالی سال 24-2023 کے بجٹ میں کیے گئے اقدامات پر سوالات اٹھائے تھے جبکہ ریٹنگ ایجنسیوں نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج پر قائل کرنے کے لیے وقت ختم ہورہا ہے۔

آئی ایم ایف کے مطالبات کے مطابق بجٹ پر نظر ثانی کرنے کے بعد حکومت کو اشد ضروری بیل آؤٹ فنڈز حاصل کرنے کے لیے آئندہ چند روز میں عالمی قرض دہندہ ادارے کی جانب سے منظوری کے اعلان کی توقع ہے۔

9 جون کو بجٹ کے اعلان کے بعد پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئیز نے عوامی طور پر بجٹ کے اقدامات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ بجٹ نے ٹیکس کی بنیاد کو زیادہ ترقی پسند انداز میں وسیع کرنے کا موقع گنوا دیا اور نئے ٹیکس اخراجات کی طویل فہرست نے ٹیکس کے نظام کی شفافیت کو مزید کم کر دیا۔

ایستھر پیریز روئیز نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا کہ نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم فنڈ پروگرام کی شرائط اور گورننس کے ایجنڈے کے خلاف ہے اور اس سے ایک غلط مثال قائم ہوئی، انہوں نے حکومت سے بجٹ کو منظور کرنے سے پہلے اسے بہتر کرنے کا کہا تھا۔

پاکستان میں حکام نے کہا کہ اب ان مطالبات کو پورا کرلیا گیا ہے، گزشتہ روز ایک عہدیدار نے کہا کہ ’آئی ایم ایف کے عملے اور وزارت خزانہ کے درمیان تقریباً تمام اضطرابی مسائل کو وزیر خزانہ کی اختتامی بجٹ تقریر سے چند گھنٹے قبل دور کر دیا گیا تھا‘، نویں جائزے کی کامیاب تکمیل کے بارے میں اعلان آئی ایم ایف کا استحقاق ہے اور اب محض رسمی کارروائی ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ اب یہ آئی ایم ایف مشن پر منحصر ہے کہ وہ ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری اور فنڈز کے اجرا کے لیے حتمی تاریخوں کا تعین کرے، تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ 30 جون تک کے کیلنڈر پر نہیں ہے جب 2019 کے ساڑھے 6 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت کی میعاد ختم ہونے والی ہے۔

حکومت کی جانب سے بجٹ میں نظر ثانی کے تحت کیے گئے اقدامات میں 215 ارب روپے کے اضافی ٹیکس اقدامات، اخراجات میں 85 ارب روپے کی کٹوتی، غیر ملکی زرمبادلہ کی آمد پر ایمنسٹی واپس لینا، درآمدی پابندیوں کا خاتمہ، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مختص رقم میں 16 ارب روپے کا اضافہ اور پیٹرولیم لیوی 50 روپے سے بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر کرنے کے اختیارات شامل ہیں۔