وائٹ ہاؤس کی مودی سے انسانی حقوق کے حوالے سے سوال کرنے والی صحافی کو ہراساں کرنے کی مذمت
وائٹ ہاؤس نے گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے سوال کرنے والی خاتون رپورٹر کو آن لائن ہراساں کیے جانے کی سخت مذمت کی۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق وال اسٹریٹ جرنل سے منسلک صحافی سبرینا صدیقی نے نریندر مودی سے پوچھا تھا کہ حکومت نے بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کی بہتری کے لیے کیا اقدامات کیے۔
خاتون صحافی نے بھارتی وزیراعظم سے پوچھا کہ آپ اور آپ کی حکومت اپنے ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کو بہتر بنانے اور اظہار رائے کی آزادی برقرار رکھنے کے لیے کیا اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے؟
نریندر مودی نے ہندی زبان میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کی جمہوری اقدار میں ذات پات، رنگ و نسل، عمر اور جغرافیائی محل وقوع کی بنیاد پر بالکل کسی قسم کا کوئی امتیاز اور تفریق نہیں ہے۔
رپورٹ میں وزیر اعظم کے حوالے سے کہا گیا کہ درحقیقت بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور جیسا کہ صدر جو بائیڈن نے بھی کہا کہ بھارت اور امریکا، دونوں ممالک، جمہوریت ہمارے ڈی این اے میں ہے، جمہوریت ہماری روح ہے، جمہوریت ہماری رگوں میں ہے۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس وقت سے سبرینا صدیقی کو مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آن لائن ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑا۔
خبر رساں ادارے وائر کی تین روز قبل کی ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ سبرینا صدیقی کو ہندوتوا کے حامی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے خاص طور پر ٹوئٹر پر ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سبرینا صدیقی پر ان کے مسلم پس منظر اور ان کے والدین میں سے ایک کا تعلق پاکستان سے ہونے کے تعلق کو اجاگر کرتے ہوئے آن لائن حملوں اور ٹرولنگ کی قیادت بی جے پی کے انفارمیشن سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے کی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اس ٹرولنگ کے بعد سبرینا صدیقی نے اپنے بھارتی نژاد والد کے ساتھ بھارتی کرکٹ ٹیم کے لیے جشن مناتے ہوئے لی گئی اپنی ایک تصویر ٹوئٹر پر پوسٹ کی۔
یہ معاملہ پیر کے روز وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی اور وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کرین جین پیئر نے ایک پریس بریفنگ کے دوران اٹھایا۔
بریفنگ کے دوران رپورٹر نے کہا کہ ’سبرینا صدیقی کو بھارت کے اندر سے لوگوں کی جانب سے شدید آن لائن ہراساں کیا گیا، ان کو ہراساں کرنے والوں میں بی جے پی حکومت سے روابط رکھنے والے کچھ سیاست دان بھی شامل تھے اور اس معاملے پر وائٹ ہاؤس سے ردعمل دینے کا کہا۔‘
جان کربی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم انہیں ہراساں کیے جانے کی رپورٹس سے آگاہ ہیں، یہ ناقابل قبول ہے اور چاہے کیسے بھی حالات ہوں، ہم ہر جگہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔
امریکی عہدیدار نے کہا کہ یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور یہ جمہوریت کے ان اصولوں کے خلاف ہے جو کہ گزشتہ ہفتے ریاستی دورے کے دوران ظاہر کیے گئے تھے۔