پاکستان

شرح سود میں اضافہ کاروبار اور صنعت کو مفلوج کر دے گا، کراچی چیمبر

آئی ایم ایف یا وزیر خزانہ اسحٰق ڈار ہمیں بتا سکتے ہیں کہ 22 فیصد شرح سود پر کونسی تجارت یا صنعت چل سکتی ہے، صدر پاکستان اپیرل فورم

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے سربراہ نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ کو 22 فیصد کرنے سے پہلے ہی مشکلات کا شکار کاروباری برادری کے لیے مزید دھچکا ہوگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کے سی سی آئی کے صدر طارق یوسف کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے بعد کاروبار کرنے کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور اس سے مہنگائی بھی بڑھے گی۔

طارق یوسف نے کہا کہ کراچی انٹربینک آفر ریٹ (کائیبور) شامل کرنے کے بعد شرح سود 25 فیصد تک ہو جائے گی، جس کے بعد قرض لینے کی کشش انتہائی کم ہو جائے گی، اسٹیٹ بینک کا یہ فیصلہ مکمل طور پر سرمایہ کاری مخالف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاور ٹیرف اور بڑھتے ہوئے ٹیکسز نے پہلے ہی کاروبار کرنے کی لاگت کو بڑھا دیا ہے اور عالمی منڈی میں برآمدات کو غیر مسابقتی بنا دیا ہے، ایسے وقت میں شرح سود بُلند کرنے سے کاروبار اور صنعت کی بقا مشکل ہو جائے گی۔

طارق یوسف نے بتایا کہ کاروباری برادری اور حکومت کے مابین مذاکرات کے متعدد دور کے باوجود صنعتکاری کے فروغ کے لیے بجٹ میں کوئی اقدامات نہیں کیے گئے، بلکہ صنعتوں پر لاتعداد ٹیکسز اور ڈیوٹیز عائد کرکے مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے، مجھے نہیں پتا ہم کہاں تک رکیں گے۔

پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) کے چیف ایگزیکٹو افسر احسان ملک نے بتایا کہ پہلے کی طرح 100 بیسس پوائنٹس کے اضافے سے مہنگائی نہیں رکے گی، یہ واضح ہے کہ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے اضافہ کیا گیا۔

احسان ملک کا کہنا تھا کہ تعجب ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر کی موجودہ پریشان کن سطح میں مانیٹری پالیسی کمیٹی ممکنہ طور پر یقین کر سکتی ہے کہ درآمدات کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ زیادہ ٹیکسز کے نفاذ سے قابل تصرف آمدنی اور طلب میں کمی ہو جائے گی، لہٰذا پالیسی ریٹ بڑھانے کی یہ وجہ بھی نہیں ہوسکتی۔

پی بی سی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جب حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 30 فیصد اضافہ تجویز کر رہی تھی تو اسے مہنگائی کے خطرات کو دیکھنا چاہیے تھا۔

اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سیکریٹری جنرل عبدالعلیم نے بتایا کہ شرح سود میں اضافہ کاروباری لاگت مزید غیر موافق اور سرمایہ کاری منصوبے کو متاثر کرے گا۔

پاکستان اپیرل فورم (پی اے ایف) کے صدر جاوید بلوانی نے بتایا کہ کیا آئی ایم ایف یا وزیر خزانہ اسحٰق ڈار ہمیں بتا سکتے ہیں کہ ’22 فیصد شرح سود پر کونسی تجارت یا صنعت چل سکتی ہے یا نفع کما سکتی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ صنعتوں کی خودکشی کا وقت آرہا ہے، بُلند شرح سود کے درمیان ہم کس طرح حکومتی آمدنی میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔

شرعی اصولوں کے تحت قومی بچت اسکیم کی چار مصنوعات متعارف

حکومت کے نئے ٹیکس اقدامات سے بلڈرز، ڈویلپرز اور کھاد فروخت کرنے والے متاثر

کاپی رائٹس کے مسائل کے حل کیلئے ملک کی پہلی میوزک پالیسی تیار