دنیا

بھارت میڈیا کے لیے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک

انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ نے بھارت میں پریس فریڈم کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس صورتحال پر قابو پانے کا مطالبہ کیا، رپورٹ

بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے باوجود بھی میڈیا کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے واشنگٹن پوسٹ میں رواں ہفتے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکی دارالحکومت کے دورے کے دوران شائع ہونے والے پورے صفحے کے اشتہار میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے باوجود بھی بھارت میڈیا کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔

بھارت میں صحافیوں کو درپیش مسائل پر روزشنی ڈالنے والے اس اشتہار کو مشترکہ طور پر دنیا کے معروف میڈیا اور حقوق کی نمائندگی کرنے والے گروپوں بشمول نیشنل پریس کلب واشنگٹن، صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی، رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز، انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آئی)، انٹرنیشنل ویمنز میڈیا فاؤنڈیشن، جیمز ڈبلیو فولی لیگیسی فاؤنڈیشن، رپورٹرز کمیٹی، اور دیگر نے اسپانسر کیا تھا۔

اشتہار میں امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اور بھارت سے آنے والے مہمانوں کو یاد دلایا گیا کہ بھارت میں صحافیوں کو جسمانی تشدد، ہراساں کیے جانے، جعلی مقدمات اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ پریس کی آزادی بڑھتے ہوئے خطرے سے دوچار ہے۔

علاوہ ازیں واشنگٹن پوسٹ نے ایک خبر بھی شائع کی جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ میڈیا اور حقوق کی وکالت کرنے والے گروپوں کے دباؤ نے کام کیا اور نریندر مودی نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس مشترکہ کانفرنس کے دوران صحافیوں سے سوالات لیے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ نیوز کانفرنس امریکی صدور کی عام طور پر غیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی کانفرنس سے بہت محدود تھی لیکن اس کے باوجود نریندر مودی کے ساتھ پریس کانفرنس کرنا آسان نہیں تھا، تاہم بھارتی حکام نے صرف ایک دن پہلے ہی اس تقریب پر اتفاق کیا تھا۔

انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آئی) نے اپنے علیحدہ بیان میں بھارت میں پریس فریڈم کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس صورتحال پر قابو پانے کا مطالبہ کیا اور جو بائیڈن پر زور دیا کہ وہ ان کو ملکی و عالمی سطح پر اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر اٹھانا چاہیے۔

آئی پی آئی جو بائیڈن کو مشورہ دیا کہ اس موقع کو بھارت بشمول کشمیری صحافیوں کی حالت زار اور تنقید کرنے والے صحافیوں کو خاموش کرنے کے لیے ’قانون‘ کا وسیع استعمال اور آزادی صحافت کے حوالے سے اہم مسائل اٹھانے کے لیے استعمال کریں۔

آئی پی آئی نے جو بائیڈن پر زور دیا کہ وہ نریندر مودی کو ملک میں آزادی صحافت کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے پر مجبور کریں، بیان میں مزید کہا گیا کہ نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے، میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی آئی ہے۔

رواں ہفتے آئی پی آئی نے واشنگٹن پوسٹ کی پریس فریڈم پارٹنرشپ کے حصے کے طور پر سات دیگر بین الاقوامی پریس فریڈم گروپس کا ساتھ دیا تاکہ اخباری اشتہار شائع کیا جا سکے جس میں چھ صحافیوں کی حالت زار کی طرف توجہ دلائی گئی جو اس وقت بھارتی سیکورٹی قوانین کی مبینہ خلاف ورزیوں کے الزام میں زیر حراست ہیں۔

صرف گزشتہ ایک سال میں آئی پی آئی نے بھارت میں 200 سے زیادہ آزادی صحافت کے خطرات یا خلاف ورزیوں کو دستاویز کیا، جس میں عدالتی ہراساں کرنا، ہدف بنا کر آن لائن نفرت انگیز مہم چلانا، جسمانی حملے، اور نریندر مودی کی قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی پر تنقید کرنے والے صحافیوں کی حراست میں لینا شامل ہیں۔

بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2019 میں نریندر مودی نے بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کی خصوصی خودمختاری کو منسوخ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں مسلم اکثریتی علاقے میں کام کرنے والے آزاد میڈیا اداروں پر سخت کریک ڈاؤن شروع ہوا۔

رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی بندش، سفری پابندیاں، چھاپے، نگرانی اور کشمیری صحافیوں سے پوچھ گچھ نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کو صحافت کے لیے دنیا کا سب سے مشکل علاقہ بنادیا ہے۔

بیان میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے صحافیوں کے لیے ذرائع سے رابطہ کرنا، معلومات اکٹھا کرنا اور اس کی تصدیق کرنا، اور اپنے کام کو شائع کرنا ناممکن ہے۔

پاکستان ریلوے کا عید الاضحیٰ کیلئے ٹرین کے کرایوں میں 33 فیصد رعایت کا اعلان

فیفا کونسل کا پاکستان فٹبال فیڈریشن نارملائزیشن کمیٹی کے مینڈیٹ میں توسیع کا فیصلہ

’گرو‘ کے کردار پر کسی خواجہ سرا کا انتخاب کیوں نہیں کیا؟ علی رحمٰن نے وجہ بتادی