قانون کی بار بار تشریح کی وجہ سے تنازعات جنم لیتے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں صرف قانون کی عملداری کی بات ہوتی ہے لیکن قانون کی بار بار تشریح کی وجہ سے تنازعات جنم لیتے ہیں لہٰذا ماہرین کو قانون کی تشریح کے ذریعے تنازعات کو ختم کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ یقین نہیں کر سکتے کہ ٹیرف کے اعداد و شمار کا معاملہ کتنا گھمبیر ہے۔
انہوں نے یاد کیا کہ جب ہم ایک فیصلہ تحریر کررہے تھے تو ہمارے ساتھی جج نے کہا کہ ہم نے کچھ پہلوؤں کا احاطہ نہیں کیا، پھر وہ ہم تین دوبارہ بیٹھے اور ہم نے کہا کہ ہمیں دوبارہ سماعت کرنی چاہیے کیونکہ ہمیں تمام فریقین سے دوبارہ جرح کرنی تھی اس لیے دوبارہ سماعت کرنی پڑی، یہ معاملہ میری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں بیٹھ کر ہم قانون کو دیکھتے ہیں کہ یہ ہمارے آئین سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں، ہمیں دیکھنا ہوتا ہے کہ کیا قانون کی کوئی ترجیحات ہیں، سب سے اول بات تو یہ ہے کہ ہمارے قانون کو نجی کاروباروں کو سپورٹ کرنا چاہیے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کاروبار کے فروغ سے معیشت ترقی کرتی ہے، کاروبار کی ترقی کے لیے ہمیں ٹیکس، کارپوریٹ ریگولیشن ، انفرا اسٹرکچر سمیت تمام شعبوں اور مختلف صنعتوں میں ایک انضباطی نظام چاہیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کیا یہ قوانین غیرامتیازی طریقے سے یہ سہولیات فراہم کررہے ہیں یا نہیں، سپریم کورٹ کے لیے آرٹیکل 25 کے تحت یہ اہم سوال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ججز وقت کے ساتھ ساتھ میچور ہوتے ہیں، عدالتیں قانونی پہلوؤں سے متعلق فیصلہ کریں اور عدالتوں میں ہم اپنے اختیارات کا استعمال بہت محتاط انداز میں کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں صرف قانون کی عملداری کی بات ہوتی ہے لیکن قانون کی بار بار تشریح کی وجہ سے تنازعات جنم لیتے ہیں لہٰذا ماہرین کو قانون کی تشریح کے ذریعے تنازعات کو ختم کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک قانون کی دو تشریحیں مسائل پیدا کرتی ہیں، ججز آسانی سے مارکیٹ میں میسر نہیں ہیں اور کئی امتحانات دینے پڑتے ہیں، ٹریبونل کے نہ بننے سے عدالتوں پر بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ہائی کورٹس کی استعداد کار بہتر بنانے کی ضرورت ہے جس سے ہائی کورٹس پربوجھ کم کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا ہمارا قانون کاروبار کے مواقع فراہم کرنے میں مددگار ہے جو بھی ریگولیٹر ہے اس کو ایک ٹریبونل بنانا چاہیے، کاروبار کے مواقع اورصنعتی ترقی سے ملکی ترقی ممکن ہے آئین کا آرٹیکل 25 منصفانہ وسائل کی تقسیم کا ہے۔
سبسڈی سے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ ہر شعبہ سبسڈی مانگ رہا ہے، سبسڈی حکومت دیتی ہے، سپریم کورٹ صرف یہ دیکھ سکتی ہے کہ یہ سبسڈی بلاامتیاز ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہاکہ ٹیکس اورکسٹم ڈیوٹی لگائی جاتی ہے اور لوگوں کوپتہ نہیں ہوتا، حکومت کو چاہیے کاروباری افراد کی مشاورت سے معاملات چلائے،کمرشل سالمیت اور ریگولیٹری اقدامات درست ہوں، جو طویل مدتی سرمایہ کاری کے لیے ضروری ہیں، نجی کاروبار کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک آئینی ادارہ ہے اور سپریم کورٹ اسے سپورٹ کرتی ہے، آڈیٹر جنرل آف پاکستان ایک آئینی ادارہ ہے اور ہم اسے مضبوط کرتے ہیں تعداد زیادہ ہونے سے بہتر یہ ہے کہ تربیت حاصل کرنی چاہیے۔