پاکستان

وزیراعظم لندن اور ان کے بھائی نواز شریف عرب ممالک کے دورے پر روانہ

وزیراعظم نواز شریف متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے تین ہفتے کے دورے پر روانہ ہو گئے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف جمعہ کو متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے تین ہفتے کے دورے پر روانہ ہو گئے جہاں وہ متوقع طور پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ عید منانے کے ساتھ ساتھ عمرہ بھی ادا کریں گے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف پیرس کے دورے کے بعد ہفتے کے آخر میں لندن پہنچے، تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا نواز شریف کے سفری منصوبوں نے دونوں کے درمیان ملاقات کی اجازت دی یا نہیں۔

نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے والد دبئی جائیں گے اور عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جا سکتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق نواز شریف کے ساتھ ان کی صاحبزادی اور مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز اور خاندان کے دیگر افراد بھی شامل ہوں گے، ذرائع نے بتایا کہ وہ ابوظبی میں شاہی خاندان کے افراد سے ملاقات بھی کر سکتے ہیں۔

نواز شریف نے پچھلی عید بھی اہلخانہ کے ہمراہ سعودی عرب میں منائی تھی جہاں مریم نواز اور خاندان کے دیگر افراد رمضان کے آخری دنوں اور عیدالفطر کے دوران ان کے ساتھ موجود تھے۔

اگرچہ کچھ لوگوں کا قیاس ہے کہ نواز شریف دبئی سے پاکستان کا سفر کریں گے تاہم ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ نواز شریف اپنے تین ہفتے کے وقفے کے بعد لندن واپس آنے والے ہیں۔

دونوں بھائیوں کی آخری ملاقات اس سال مئی کے شروع میں ہوئی تھی، جب وزیراعظم شہزادہ چارلس کی تاجپوشی میں شرکت کے لیے لندن گئے تھے، 9 مئی کے احتجاج اور اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے خلاف فوج کے کریک ڈاؤن کے پیش نظر اس وقت سے اب تک بہت کچھ ہو چکا ہے اور وزیر اعظم اور ان کے بڑے بھائی جو پارٹی کے اہم فیصلہ ساز بھی ہیں، کے درمیان ملاقات پارٹی کے مستقبل کے فیصلوں کے لیے اہم ہے۔

پارٹی کے اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ نواز شریف تمام سیاسی جماعتوں، فوج، عدلیہ حتیٰ کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن ناکام کے خطرے کے پیش نظر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پہلا قدم اٹھائے جانے سے ہچکچا رہے ہیں۔

ذرائع نے مزید کہا کہ اگرچہ نواز شریف فوجی عدالتوں میں سویلینز پر مقدمہ چلانے کے دباؤ سے پریشان ہیں لیکن وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ عمران خان سے نمٹنے کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں، وہ اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ معاشی اور سیاسی بحران کو ٹھیک کرنے میں کافی وقت لگے گا۔

اب ان بھائیو میں جب بھی ملاقات ہوگی تو ان مسائل پر بات چیت کا امکان ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انتخابات کی تاریخ پر بات چیت بھی متوقع ہے، شہباز شہباز نے عمران خان کے ساتھ بات چیت کی مخالفت کی ہے اور ان کی حکومت کے ارکان پریس کانفرنسوں میں پی ٹی آئی کے خلاف فوجی کریک ڈاؤن کا جشن منا رہے ہیں۔

کچھ ذرائع نے یہ بھی تجویز کیا کہ نواز شریف پُرامید ہیں کہ اگر سپریم کورٹ میں اس سلسلے میں نظرثانی درخواست کامیاب ہوتی ہے تو انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت مل جائے گی اور اس کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔