پولیس پر ’فائرنگ‘ کا الزام، لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز،ساتھیوں پر دہشت گردی کا مقدمہ درج
لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز اور ان کے چار ساتھیوں پر پولیس پر فائرنگ کرنے کے الزام میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔
گزشتہ روز لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کی کوشش کے خلاف جامعہ حفصہ کی طالبات ایک بار پھر سڑکوں پر آگئیں جس نے ماضی کی دردناک یادوں کو تازہ کردیا۔
ایک روز قبل اپنے محافظوں کی جانب سے پولیس ٹیم کے خلاف مزاحمت کرنے کے بعد مولانا عبدالعزیز کو گرفتاری سے بچا لیا گیا جس کے بعد جامعہ حفصہ کی طالبات نے گرفتاری کی کوشش کے خلاف احتجاجاً لاٹھیاں اٹھاتے ہوئے سڑکیں بند کردیں۔
دارالحکومت کی انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے تصدیق کی کہ محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی ایک ٹیم مولانا عبدالعزیز سے بات کرنے کے لیے لال مسجد گئی تھی اور ان سے کچھ سوالات کی وضاحت کے لیے پیش ہونے کو کہا تھا۔
ان سوالات میں اُن کے لال مسجد میں بطور خطیب دوبارہ نماز کی امامت سے متعلق پوچھ گچھ شامل تھی کیونکہ وہ ریٹائر ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ امامت کسی اور کو سونپی جاچکی ہے۔
علاوہ ازیں ان سے بچوں کی لائبریری کے ملحقہ پلاٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش سمیت دیگر معاملات کے حوالے سے بھی پوچھ گچھ کی جانی تھی۔
اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ حکام نے ان کے احتجاج سے بات کرنے کی کئی کوششیں کیں۔
احتجاج کے دوران مدرسے کی طالبات نے خواتین کانسٹیبلز کو بھی لاٹھیوں سے تشدد کا نشانہ بنایا، تاہم گزشتہ روز کی شام تک تمام سڑکیں صاف کر دی گئیں تھی۔
فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) واقعے کے کچھ ہی دیر بعد اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) شمس الاکبر نے سی ٹی ڈی پولیس اسٹیشن میں درج کرائی تھی۔
ایف آئی آر میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 148، 149 ،186، 353 ،427 ،324 شامل کی گئی ہیں۔
ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 7 اور 11ای کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں ایس ایچ او نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کی ٹیم کو الرٹ کیا گیا تھا کہ میلوڈی سگنل سے ایک سفید ڈبل کیبن گاڑی جس میں مشکوک مسلح افراد تھے آرہی ہے، اس کے بعد تمام پولیس ٹیموں کو اس کے مطابق تعینات کیا گیا جس کے بعد ایک سفید ڈبل کیبن گاڑی، جس کا رجسٹرڈ نمبر سی کے -7590 تھا وہ وہاں پہنچی۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا گیا جس میں پانچ افراد سوار تھے۔
اس پر تین مسافر بشمول مراد خان جو ڈنڈے سے لیس تھے، ابرار احمد جو سب مشین گن (ایس ایم جی) سے لیس تھے اور سرفراز حسین جو ایس ایم جی سے لیس تھے وہ گاڑی سے باہر آئے اور مسلح افراد نے پولیس ٹیم پر قتل کے ارادے سے فائرنگ کی۔
ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ کار میں موجود باقی دو افراد ڈرائیور منظور اور مولانا عبدالعزیز موجود تھے۔
ایس ایچ او نے مؤقف اختیار کیا کہ مولانا عبدالعزیز اے ٹی اے کے تحت درج مقدمات میں مطلوب تھے اور ان کا نام فورتھ شیڈول میں بھی شامل تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مولانا عبد العزیز نے گاڑی کے اندر رہتے ہوئے پولیس ٹیم پر براہ راست فائرنگ کی اور پھر فرار ہوگئے۔
شکایت کنندہ نے مزید کہا کہ خوش قسمتی سے ہم محفوظ رہے لیکن گولیاں کار کو لگیں، جس سے گاڑی کو نقصان پہنچا۔
انہوں نے بتایا کہ گاڑی سے باہر آنے والے تینوں افراد کو حراست میں لے لیا گیا، جس کے بعد ابرار احمد کے پاس سے بھاری بھرکم میگزین کے ساتھ ایک ایس ایم جی برآمد ہوئی۔
مزید کہا کہ سرفراز حسین سے ایک میگزین کے ساتھ ایک اور ایس ایم جی برآمد کی گئی اور دونوں میں سے کوئی بھی اسلحے کے لیے لائسنس یا اجازت نامہ پیش نہیں کر سکا جبکہ تیسرے شخص سے ایک ڈنڈا بھی برآمد ہوا ہے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ گولیوں کے 11 خول زمین پر بکھرے ہوئے پائے گئے، جنہیں ثبوت کے طور پر پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا اور دیگر اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا گیا۔
ایف آئی آر میں زور دے کر کہا گیا کہ پولیس پارٹی پر حملہ کرکے، بغیر لائسنس کے ہتھیار رکھ کر اور مولانا عبد العزیز کے ساتھ ’مشترکہ سازش‘ کرکے مشتبہ افراد کا مقصد ریاستی اداروں، عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خوف پھیلانا تھا۔
مزید کہا گیا ہے کہ اس طریقے سے ایک پولیس پارٹی پر سرعام گولی چلا کر، عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں خوف پھیلایا گیا۔
مولانا عبدالعزیز کا مؤقف
اس دوران مولانا عبدالعزیز نے سوشل میڈیا پر اپنا ویڈیو بیان جاری کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ ظہر کی نماز کی امامت کے بعد لال مسجد سے نکلتے ہی کچھ سرکاری گاڑیاں انہیں گرفتار کرنے آئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی کی 2 گاڑیوں نے میرا پیچھا کیا اور میری گاڑی کو روکا، پھر کئی اہلکار باہر آئے اور مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کی، انہوں نے ہم پر گولی چلائی جس سے لڑائی شروع ہوگئی اور میں زخمی ہو گیا، آپ میری گاڑی کو دیکھ سکتے ہیں لیکن میری بندوق سے فائر نہ ہوسکا، سی ٹی ڈی کے 4 سے 5 اہلکاروں نے مجھے پکڑ کر نیچے گرا دیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں زخمی ہوگیا تھا لیکن خدا کی قدرت سے میں نے ایک اہلکار کی بندوق چھینی اور فائرنگ شروع کردی، اس دوران بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے ہو گئے جس سے مجھے فرار ہونے کا موقع مل گیا، زخمی ہونے کے باوجود میں جامعہ حفصہ پہنچنے میں کامیاب رہا۔
ایک فوٹیج میں مولانا عبدالعزیز کی کار سیونتھ ایونیو پر کلثوم پلازہ پُل پر کھڑی دیکھی گئی جس میں ونڈ اسکرین پر گولیوں کے سوراخ تھے، واقعے کے بعد مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ اُم حسن کی جانب سے شدید اشتعال انگیز بیانات دیے گئے۔
بعد ازاں ایک ویڈیو پیغام میں اُم حسن نے کہا کہ مولانا عبدالعزیز نے سی ٹی ڈی ٹیم پر کئی راؤنڈ فائر کیے اور کراس فائر ہوا، انہیں سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے اس وقت پکڑا جب ان کی اے کے-47 میں گولیاں ختم ہوگئیں تاہم وہ گرفتاری سے بچنے میں کامیاب ہو گئے اور اہل علاقہ کی مدد سے وہ جامعہ حفصہ پہنچ گئے۔
اپنے ویڈیو پیغام میں ام حسن نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مدد بھی مانگ لی اور اُن سے خاموش نہ رہنے کی اپیل کی۔
لال مسجد
دارالحکومت کے مرکز میں واقع لال مسجد اس وقت مقبول ہوئی جب جولائی 2007 میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے ایک مکمل فوجی آپریشن کیا۔
مولانا عبدالعزیز کو اسی مہینے برقعے میں فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا، اور ان کے گیارہ سو سے زیادہ حامیوں کو حراست میں لے لیا گیا جب کہ ان کا بھائی مارا گیا تھا۔
2017 کی ای او ایس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2007 سے 2017 تک مولانا عبدالعزیز کے خلاف کل 35 مقدمات درج کیے گئے لیکن پھر 2017 میں انہیں ان تمام مقدمات سے بری کر دیا گیا۔
2004 میں پیش امام کے عہدے سے برطرف کیے جانے کے باوجود، وہ مارچ 2019، فروری 2020 اور ستمبر 2022 سمیت متعدد بار لال مسجد پر قبضہ کر چکے ہیں۔
مولانا عبدالعزیز کے خلاف شاید سب سے زیادہ عام مقدمہ دسمبر 2014 میں سول سوسائٹی کے کارکنوں نے درج یا تھا جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے والے قتل عام کی مذمت کرنے سے انکار پر احتجاج کرنے پر مولانا کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی تھیں۔
نئے سال 2015 کے دن ایک انٹر سروسز انٹیلی جنس رپورٹ میڈیا پر لیک ہوئی جس میں مولانا کے دہشت گرد تنظیموں سے روابط کی تفصیلات موجود تھیں۔
رپورٹ نے کالعدم ٹی ٹی پی اور مولانا عبدالعزیز کے درمیان روابط کے شواہد کو دہرایا اور انکشاف کیا کہ طالبان نے انہیں حکومت کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت کے لیے اپنا نمائندہ نامزد کیا تھا جبکہ رپورٹ میں مولانا کو زمین پر قبضہ کرنے والے اور پراپرٹی ٹائیکون سے بھی جوڑا گیا تھا۔