دنیا

لاپتا ٹائٹن آبدوز سے متعلق حفاظتی خدشات کا انکشاف

اوشن گیٹ کے سابق ملازم نے 2018 میں ہی خبردار کردیا تھا کہ آبدوز کو حفاظتی مسائل کا سامنا ہے۔

ہزاروں فٹ سمندر کی گہرائی میں لاپتا ہونے والی ٹائٹن آبدوز کی ملکیت رکھنے والی امریکی کمپنی اوشن گیٹ کے سابق ملازم نے 2018 میں ہی خبردار کردیا تھا کہ آبدوز کو حفاظتی مسائل کا سامنا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق امریکی عدالتی دستاویزات سے معلوم ہوا کہ کمپنی کے میرین آپریشنز کے ڈائریکٹر ڈیوڈ لوچریج نے جائزہ رپورٹ میں خدشات کا اظہار کیا تھا۔

دستاویزات کے مطابق آبدوز سے متعلق متعدد مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی جن سے حفاظتی خدشات لاحق تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ آبدوز کو جانچ کی ضرورت ہے، موجودہ حالت میں جب یہ انتہائی گہرائیوں تک پہنچے گی تو مسافروں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

ڈیوڈ لوچریج کا کہنا ہے کہ ان کی وارننگ کو نظر انداز کیا گیا، جس کے بعد اوشن گیٹ کے مالکان نے اجلاس طلب کیا لیکن انہیں نوکری سے نکال دیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق کمپنی نے خفیہ معلومات ظاہر کرنے پر سابق ملازم پر مقدمہ دائر کیا تھا۔

ڈیوڈ لوچریج نے بھی بے جا برطرفی کا مقدمہ دائر کیا، تاہم سابق ملازم اور کمپنی کے درمیان تصفیہ ہوگیا، جس کے بارے میں مزید معلومات سامنے نہیں آسکیں۔

بی بی سی نے ڈیوڈ لوچریج سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

اس کے علاوہ مارچ 2018 میں میرین ٹیکنالوجی سوسائٹی کی طرف سے اوشن گیٹ کو بھیجے گئے ایک خط میں بھی ٹائی ٹینک کے قریب لاپتا ہونے والی آبدوز کی کمزور سیفٹی پر خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق اوشن گیٹ کے ترجمان نے ڈیوڈ لوچریج کے اٹھائے گئے حفاظتی خطرات پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

کمپنی کی جانب سے ایک ’تجربہ‘ قرار دینے والی ٹائٹن آبدوز گہرے سمندر میں لاپتا ہے۔

دوسری جانب ڈیوڈ نے دعویٰ کرتے ہوئے انکشاف کیا ہےکہ آبدوز کو آزاد انسپکٹرز سے چیک نہیں کرایا گیا تھا۔

آبدوز میں موجود ہُل (hull) ایسا حصہ ہے جہاں مسافر بیٹھتے ہیں، جو کاربن فائبر سے بنایا گیا تھا جس کے ایک سرے پر ٹائٹینیم کی پلیٹیں موجود ہیں اور دوسری جانب ایک چھوٹی کھڑکی ہے۔

پورٹسماؤتھ یونیورسٹی میں میرین بائیولوجی کے لیکچرار ڈاکٹر نکولائی روٹرڈیم کہتے ہیں کہ عام طور پر ٹائٹینیم کا دائرہ 2 میٹر ہوتا ہے۔

سمندری کی گہرائی کو برداشت کرنے کے لیے آپ کو انتہائی مضبوط مواد کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ پانی کے دباؤ میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

ٹائٹینیم یا اسٹیل کے مقابلے کاربن فائبر کے استعمال میں لاگت کم آتی ہے لیکن یہ ٹائٹن جیسے گہرے سمندری آبدوزوں کے لیے ناتجربہ کار ہے۔

اوشن گیٹ کے سی ای او رش اسٹاکٹن نے گزشتہ سال ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کاربن فائبر کا استعمال چھوٹی کشتی اور ہوا بازی میں کامیابی کے ساتھ کیا جاتا ہے، لیکن اسے آبدوزوں میں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔

عدالتی دستاویزات میں ڈیوڈ لوچریج نے دعوی کیا کہ آبدوز کے ہُل نامی حصے کو صحیح طریقے سے چیک نہیں کیا گیا، کیونکہ اسی حصے پر بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے اور ممکنہ مسائل درپیش آسکتے تھے۔

انہوں نے دعویٰ کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ آبدوز کے ماڈل میں موجود کاربن میں خامیاں ہیں۔

ڈیوڈ لوچریج نے ٹائٹن کے گلاس ویو پورٹ کے مسائل سے متعلق بھی سوال اُٹھائے تھے۔

یاد رہے کہ اتوار کو ٹائی ٹینک کی باقیات کو دیکھنے کے لیے جانے والی 22 فٹ کی چھوٹی آبدوز سے ہر قسم کا رابطہ منقطع ہوگیا تھا، جو شمالی بحر اوقیانوس کی سطح سے دو میل (تقریباً چار کلومیٹر)گہرائی میں موجود ہے۔

ٹائٹن نامی آبدوز امریکا میں قائم کمپنی اوشن گیٹ ایکسپیڈیشن چلاتی ہے، جس کی خصوصیات کے مطابق اسے 96 گھنٹے تک زیر آب رہنے کے لیے بنایا گیا تھا۔

اینگرو کارپوریشن کے وائس چیئرمین اور پاکستانی بزنس مین شہزادہ داؤد، ان کا 19 سالہ بیٹا سلیمان، برطانوی ارب پتی ہمیش ہارڈنگ، فرانسیسی ایکسپلورر پال ہنری نارجیولٹ، اوشین گیٹ کے سی ای او اسٹاکٹن رش اس آبدوز پر سوار تھے جو ٹائی ٹینک کے ملبے کے قریب لاپتا ہوئی۔

آبدوز میں پھنسے افراد کی صحت کو کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں؟

لاپتا آبدوز کی تلاش کے دوران ’پانی کے اندر آوازوں کی نشاندہی‘

’ٹائٹینک کے ملبے کی سیر کرانے والی آبدوز لاپتا، 2 پاکستانی بھی سوار تھے