دنیا

لاپتا آبدوز کی تلاش کے دوران ’پانی کے اندر آوازوں کی نشاندہی‘

پانچ مسافروں کو لے کر ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے جانے والی آبدوز کا 2 روز قبل رابطہ منقطع ہوگیا تھا، آبدوز میں جمعرات تک کے لیے آکسیجن موجود ہے، رپورٹ

ٹائی ٹینک کے ملبے کا نظارہ کرنے کے لیے جانے والی سیاحوں کی لاپتا آبدوز کی تلاش میں مصروف امدادی کارکنوں نے علاقے میں ’پانی کے اندر شور‘ سنا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق اس پیش رفت کے بارے میں امریکی کوسٹ گارڈ نے ایک بیان میں بتایا کہ 2 روز قبل آبدوز کا رابطہ منقطع ہوگیا تھا اور اب ان کے پاس آکسیجن بھی تیزی سے ختم ہو رہی ہوگی۔

اتوار کو برطانوی مسافر بردار جہاز کی باقیات کو دیکھنے کے لیے جانے والی 21 فٹ کی چھوٹی آبدوز سے ہر قسم کا رابطہ منقطع ہوگیا تھا، جو شمالی بحر اوقیانوس کی سطح سے دو میل (تقریباً چار کلومیٹر)گہرائی میں موجود ہے۔

ٹائٹن نامی آبدوز امریکا میں قائم کمپنی اوشن گیٹ ایکسپیڈیشن چلاتی ہے، جس کی خصوصیات کے مطابق اسے 96 گھنٹے تک زیر آب رہنے کے لیے بنایا گیا تھا یوں اس میں سوار پانچوں افراد کے پاس جمعرات تک کا وقت ہے جس کے بعد آکسیجن ختم ہوجائے گی۔

اینگرو کارپوریشن کے وائس چیئرمین شہزادہ داؤد، ان کا 19 سالہ بیٹا سلیمان، برطانوی ارب پتی ہمیش ہارڈنگ، فرانسیسی ایکسپلورر پال ہنری نارجیولٹ، اوشین گیٹ کے سی ای او اسٹاکٹن رش اس آبدوز پر سوار تھے جو ٹائی ٹینک کے ملبے کے قریب لاپتا ہوئی۔

امریکی اور کینیڈا کے ساحلی محافظوں کے بحری اور ہوائی جہاز سمندرکے 7 ہزار 600 مربع مربع میل علاقے میں اس آبدوز کو تلاش کر رہے ہیں جس نے کینیڈا کے ساحل نیو فاؤنڈ لینڈ سے تقریباً 400 میل گہرائی میں غوطہ لگانے کی کوشش کی۔

امریکی کوسٹ گارڈ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک بیان میں بتایا کہ کینیڈین پی-3 طیارے نے تلاش کے علاقے میں پانی کے اندر شور کا پتا لگایا ہے، نتیجتاً شور کا ماخذ پتا لگانے کے لیے آر او وی (ریموٹ سے چلنے والی گاڑی) کے آپریشن کا مقام تبدیل کیا گیا۔

میری ٹائم ملٹری برانچ نے مزید کہا کہ ’آر او وی کی تلاش کے اب تک منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں لیکن کوششیں جاری ہیں‘۔

کوسٹ گارڈ نے ان آوازوں کی نوعیت یا حد کی تفصیل نہیں بتائی نہ یہ بتایا کہ اس کا کیسے پتا چلایا گیا۔

البتہ سی این این اور رولنگ اسٹون میگزین نے امریکی حکومت کے اندرونی مواصلات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کینیڈین ہوائی جہاز نے تلاشی کے علاقے میں 30، 30 منٹ کے وقفے سے زوردار آوازوں کا پتا لگایا ہے۔

رولنگ اسٹون نے سب سے پہلے اس آبدوز کے لاپتا ہونے کی اطلاع دی تھی، جس نے کہا کہ اس علاقے میں نصب سونر بوئز کے ذریعے آوازوں کا پتا چلا اور اضافی سونر نے چار گھنٹے بعد مزید زوردار آوازیں سنیں۔

سی این این نے امریکی حکومت کے ایک میمو کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پہلی آواز کا پتا چلنے کے تقریباً چار گھنٹے بعد مزید آوازیں سنی گئیں، تاہم نیوز چینل نے کہا کہ شور کی دوسری آواز کو زوردار نہیں کہا گیا۔

امریکی بحریہ کے مطابق دنیا بھر سے ریسکیو امداد پہنچ رہی ہے، جس میں انتہائی گہرائی سے بھاری اشیا کو اٹھانے کے لیے خصوصی ونچ سسٹم، دیگر سامان اور اہلکار منگل کی رات کو بچاؤ کی کوششوں میں شامل ہوں گے۔

پینٹاگون نے کہا کہ وہ تیسرا سی-130 طیارہ اور تین سی-17 طیاروں کو تعینات کر رہا ہے جبکہ فرانس کے اوشیانوگرافک انسٹی ٹیوٹ نے اعلان کیا کہ گہرے سمندر میں پانی کے اندر جانے والا روبوٹ اور اس کے ماہرین بدھ کو وہاں پہنچیں گے۔

’لاپتا آبدوز کی تلاش خلا کا سفر کرنے جیسا ہے‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ چھوٹے سائز کی آبدوز کو تلاش کرنے کی کوشش کرنے والے امدادی کارکنوں کو ایک بہت بڑا کام درپیش ہے جو تکنیکی معلومات کی حدود کو جانچے گا۔

ٹائی ٹینک کے ماہر ٹم مالٹن نے ’این بی سی نیوز ناؤ‘ کو بتایا کہ ’وہاں پر گھپ اندھیرا ہے اور جمانے والی سردی اور مٹی کا سمندری فرش ہے، آپ اپنے چہرے کے سامنے اپنا ہاتھ نہیں دیکھ سکتے، یہ واقعی تھوڑا سا ایسا ہی ہے جیسے خلا میں جانے والا خلانورد‘۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے کیپٹن جیمی فریڈرک نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کی تنظیم تلاش کے لیے تعاون کر رہی ہے لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ناقابل یقین حد تک دشوار کام ہے اور اس سے کہیں آگے ہے جو کوسٹ گارڈ عام طور پر انجام دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکی کوسٹ گارڈ نے تلاش اور بچاؤ مشن کے کوآرڈینیٹر کا کردار سنبھالا ہے لیکن ہمارے پاس اس نوعیت کی تلاش کے لیے درکار تمام ضروری مہارت اور آلات نہیں ہیں، یہ تلاش کی ایک پیچیدہ کوشش ہے، جس کے لیے متعدد ایجنسیوں کی ضرورت ہے جن کے پاسں اس کام کی مہارت اور خصوصی آلات ہوں۔