نقطہ نظر

بیرون ملک ملازمت: دیوار پھلانگنے کے بجائے دورازے سے داخل ہوں

اس وقت کئی لاکھ نوجوان ایسے ہیں جو کہ اپنا مستقبل بیرون ملک دیکھتے ہیں مگر آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت لوگ سوگ اور صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ یونان میں تارکین وطن کی کشتی کو پیش آنے والے حادثے نے کئی گھروں کے چراغ گل کردیے ہیں۔ ملک کے تقریباً ہر حصے میں کوئی نہ کوئی گھر کسی نہ کسی حد تک اس سے متاثر ہے۔ اس اندوہناک اور انسانیت سوز واقعے کے بعد حکومت پاکستان نے قومی سوگ کا اعلان کیا اور ساتھ ہی انسانی اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاون کا فیصلہ بھی کیا۔ اس حوالے سے کئی گروہوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔

بیرون ملک ملازمت حاصل کرنے کے لیے پاکستانی نوجوانوں کے لیے قانونی اور غیر قانونی ذرائع دونوں موجود ہیں۔ غیر قانونی ذرائع سے پاکستانی نوجوانوں کا بیرون ملک روز گار کمانے کا خواب اکثر و بیشتر ایک جان لیوا سفر ہوتا ہے۔ نوجوان انتہائی نامساعد اور پرخطر حالات میں کئی کئی دن بھوک پیاس کو برداشت کرتے ہوئے پیدل سفر کرکے یا مال بردار گاڑیوں اور کشتیوں میں سفر کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس سفر میں کئی تو راستے میں ہی ہار مان کر واپس آجاتے ہیں۔ مگر وہ اپنے خاندان کی جمع پونجی، یا زمین جائیداد گنوا بیٹھتے یا پھر بھاری قرض میں دب جاتے ہیں کیونکہ اس سفر کے لیے ایجنٹ کو 30 سے 35 لاکھ روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ جبکہ ایک بڑی تعداد سفری دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے مختلف ملکوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتی ہے۔ انہیں چھڑانے کے لیے اہل خانہ کو مزید ذہنی پریشانیاں اٹھانا پڑتی ہیں۔ اسی لیے بہت سے نوجوان تمام تر سختیاں برداشت کرنے کے باوجود آگے بڑھتے رہتے ہیں کیونکہ ان کے پاس گھر واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ شاید یہی دباؤ ہوتا ہے کہ کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

پاکستان سے بیرون ملک ملازمت کے لیے جانے کا عمل 1970ء کی دہائی میں تیزی سے شروع ہوا۔ جب گاؤں دیہات سے لوگوں کو خلیجی ملکوں میں ملازمت کے مواقع فراہم کیے جانے لگے۔ اسی کی عکاسی پنجابی زبان میں بنائی گئی فلم ’دبئی چلو‘ میں بھی کی گئی تھی کہ کس طرح دبئی میں ملازمت کے خواہش مند افراد کو دھوکے کے ذریعے لوٹا جاتا ہے۔

کئی سال قبل ہمارے دوست اور صحافی قاضی حسن نے بھی جیو نیوز کے لیے انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے ایک تحقیقاتی اوردستاویزی رپورٹ تیار کی تھی۔ جس میں وہ خود کو انسانی اسمگلروں کے حوالے کر کے ایران تک جاتے ہیں۔ وہ ایران سے ترکی جانے والے پرخطر راستے سے قبل ہی واپس پاکستان لوٹ آئے مگر اس رپورٹ نے انسانی اسمگلنگ کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے نیٹ ورک کو بہت اچھی طرح اجاگر کیا تھا۔

سال 1995ء کی بات ہوگی کہ راقم نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ سنگاپور اور بینکاک کا سفر کیا۔ بینکاک کے جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے ہوئے تھے وہاں پاکستان کے علاقے گجرات اور سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کا ایک گروہ بھی ٹھہرا ہوا تھا۔ ان سے دوستی ہوگئی تو انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ لوگ جرمن اور برطانوی پاسپورٹ پر تصویر تبدیل کر کے نوجوانوں کو جاپان اور کوریا لے کر جاتے ہیں۔ کیونکہ ان ممالک کے لیے جاپان میں ویزا فری انٹری ہے۔ مگر اس کے لیے یہ شرط ہے کہ نوجوان کی رنگت سفید ہو۔ اس کے سیاہ بالوں کو بلیچ کر کے پہلے سنہرا کیا جاتا پھر ان کی تصویر پاسپورٹ پر لگائی جاتی اور جاپان بھجوا دیا جاتا۔ مگر ان میں سے کئی افراد اس جعل سازی میں پکڑے گئے اور جاپان یا بینکاک کی جیلوں میں قید تھے۔

پاکستان سے سالانہ 30 سے 40 ہزار نوجوان بہتر مستقبل کی تلاش میں غیر قانونی طور پر یورپ، جاپان کوریا سمیت خلیجی ملکوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یورپ جانے کے روٹ میں سب سے خطرناک مرحلہ ایران اور ترکی کے درمیان پیدل سفر کرنا ہے۔ جس کو عام طور پر ڈنکی مارنا کہتے ہیں۔ سرد پہاڑی دشوار گزار اور بیابان راستے میں اگر کوئی زخمی یا بیمار ہوجائے تو وہاں کسی قسم کی مدد دستیاب نہیں ہوتی۔ اپنی جان بچانے کے لیے بیماری اور زخمی ہونے سے بچنا ہوتا ہے۔ اس سفر میں پیدل چلنے کی وجہ سے اکثر نوجوانوں کے پیروں پر ایسے زخم بھی ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں کاٹنا پڑسکتا ہے۔ ڈنکی کا سفر ایک بے رحمانہ سفر ہے جس میں بیماری، زخم، بھوک پیاس یا تھکاوٹ جان لے لیتی ہے۔ مگر ترکی پہنچ کر بھی مشکلات سے بھرا سفر ختم نہیں ہوتا۔

ترکی سے یورپ جانے کے لیے زمینی اور سمندری سفر کے دو راستے ہوتے ہیں۔ زمینی راستے میں بارڈر فورسز کے ہاتھوں گرفتاری یا ڈنکی کی طرح موت کا خطرہ ہوتا ہے۔ چند سال قبل تک ٹرکوں میں سامان کے پیچھے چھپ چھپا کر یورپ میں غیر قانونی داخلے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اس میں بھی جان جانے کا خطرہ موجود تھا۔ زمینی سرحدوں پر سخت سیکیورٹی کے بعد اب سمندر کے ذریعے یورپ میں داخلے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں بھی اکثر تارکین وطن موت کا شکار ہوجاتے ہیں یا پھر ان کی کشتی واپس کردی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بیرون ملک غیر قانونی سفر اختیار کرنے والے 100 میں سے 10 یا اس سے کم افراد ہی یورپ باحفاظت پہنچ پاتے ہیں۔ باقی جیل موت یا پھر سفری مشکلات سے ہار کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔

یونان میں کشتی حادثے کے بعد حکومت نے انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی شروع کردی ہے۔ مگر ملکی معیشت میں نوجوانوں کو بہتر روز گار فراہم نہ کرنے کی وجہ سے بیرون ملک ملازمت کی طلب موجود رہے گی۔ اسی طرح یورپ، جاپان، کوریا اور دیگر ملکوں میں ہنرمند اور غیر ہنرمند افرادی قوت کی بہت زیادہ کھپت موجود ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ حکومتی سطح پر نوجوانوں کو قانونی طور پر بیرون ملک ملازمت کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے اور حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں۔ نوجوانوں کو آگاہ کرنا ہوگا کہ بیرون ملک ملازمت کے لیے غیر قانونی طور پر دیوار پھلانگنے کے بجائے قانونی طریقہ اپناتے ہوئے دروازے سے داخل ہوں۔

پاکستان کی آبادی میں 60 فیصد حصہ 30 سال سے کم عمر نوجوانوں کا ہے جبکہ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو امیر ملکوں میں آبادی کی شرح نمو منفی یا منفی کے قریب ہوچکی ہے تو دوسری طرف ان کی کل آبادی میں اکثریت بوڑھے افراد کی ہے۔ آبادی میں کمی اور عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کے لیے ضروری افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے جبکہ معیشت کو چلانے کے لیے بھی امیر ملکوں کو نوجوان تریبت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہے۔

تحقیقاتی ادارے دی بوسٹن کلسنٹیٹو گروپ نے افرادی قوت کے حوالے سے دنیا کی 25 بڑی معیشتوں کا جائزہ لیا اور اس بات کا انکشاف کیا کہ ان معیشتوں کو سہارا دینے کے لیے بڑے پیمانے پر افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ اور بیشتر حکومتیں اپنی افرادی قوت کی قلت کو دور کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہیں۔ کیونکہ سال 2030ء تک اگر افرادی قوت کی کمی دور نہ کی گئی تو ان معیشتوں کو 10 ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے۔

یورپی یونین میں ملازمین کی قلت کے حوالے سے جاری کردہ اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ یورپی یونین میں 2.8 فیصد اور یورو زون میں 3 فیصد اسامیاں خالی پائی گئی ہیں۔ ان میں سے بیلجیئم ، ہالینڈ اور آسٹریا میں 4.7 فیصد جبکہ جرمنی میں 4.1 فیصد اسامیوں کو خالی قرار دیا گیا ہے۔

یورپی یونین میں جرمنی نے ایک امیگریشن کا قانون پاس کیا ہے جس کے تحت جرمنی میں متعدد شعبہ جات میں ملازمت کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ جرمن حکومت کے مطابق گرین جاب، نرسنگ، فزیشن، انجنیئر، سائنسدان، ٹرانسپورٹرز اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ماہرین کی طلب ہے۔ جرمنی میں ملازمت کے لیے دوسال کی وکیشنل تریبت کے ساتھ ساتھ جرمن زبان سیکھنا لازمی ہے۔ وہ نوجوان جو کہ جرمنی میں ملازمت چاہتے ہیں وہ براہ راست جرمن حکومت کی ویب سائٹ پر ملازمت کے پرکشش شعبہ جات، ملازمت کی تلاش، ملازمت کے لیے رجسٹریشن، کاروبار، اور دیگر موضوعات پر تفصیلی معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ جرمن حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2021ء میں حکومت نے 97 ہزار سے زائد ورک ویزا جاری کیے 89 ہزار افراد کو یورپی یونین کا بِلیو کارڈ جاری کیا۔

اسی طرح برطانیہ جو کہ یورپی یونین سے الگ ہوچکا ہے اس کو بھی بڑی تعداد میں افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ برطانیہ میں مویشی پروری، زراعت اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں افرادی قوت کی قلت ہے۔ برطانوی حکومت نے بھی صحت کے شعبوں میں کام کرنے والوں کے لیے ویزا پالیسی جاری کی ہوئی ہے۔

برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس میں نرسنگ، ڈاکٹرز اور شعبہ طب کے ٹیکنیکل شعبہ جات میں طلب کے علاوہ دیگر شعبہ جات میں ہنرمند افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ برطانیہ میں ملازمت کے لیے آجر سے اسپانسر شپ سرٹیفکیٹ درکار ہوتا ہے۔ برطانیہ میں 6 شعبہ جات کے ماہرین کو عارضی ویزہ بھی دیا جاتا ہے۔ ان میں تخلیقی کام، چیریٹی ویزہ، مذہبی رسومات کے لیے، حکومت کے منظور شدہ ملازم کے تبادلے کا ویزہ، عالمی معاہدوں کے تحت ملازمین کو ویزہ اور کام کے لیے مخصوص ویزہ شامل ہیں۔

اگر پاکستانی ملازمت کے لیے ایشیا کا رخ کریں تو جاپان ایک پرکشش مقام نظر آتا ہے۔ سال 2019ء میں جاپان نے ہنر مند افرادی قوت کا معاہدہ حکومت پاکستان کے ساتھ کیا تھا۔ پاکستان ان 10 بڑے ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں سے جاپان ہنرمند افرادی قوت حاصل کرنے کا خواہش مند ہے۔ پاکستان سے جاپان نے سرکاری طور پر 14 شعبہ جات میں افرادی قوت طلب کی ہے جس میں نرسنگ، عمارتوں کی صفائی، دھاتوں کی ڈھلائی، مشینوں کے پرزہ جات اور ٹولز کی صنعت، الیکٹریشن، الیکٹرانکس، تعمیرات، بحری جہاز سازی، آٹوموبیل، ایوی ایشن، رہائشی صنعت، زراعت، ماہی پروری، کھانےکی تیاری، اور سروس کے شعبہ جات شامل ہیں۔

ان مواقع کے باوجود پاکستانی غیر قانونی طور پر بیرون ملک کیوں جاتے ہیں اس سوال کے جواب کے لیے ایک اہم پہلو پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔

حکومت پاکستان نے اوور سیز پاکستانی اینڈ ہیومن ریسورس وزارت، اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن اور بیور آف امیگرینٹ اوور سیز ایمپلائمنٹ قائم کیا ہوا ہے۔ ان اداروں کی زیادہ تر توجہ خلیجی ممالک کی جانب ہے۔ جبکہ بیورو آف امیگریمنٹ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی 2020ء کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، قطر، بحرین، جاپان، جرمنی، کویت، جنوبی کوریا اور چین میں ہنرمند اور غیر ہنرمند افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ اور پاکستانی وہاں قانونی طریقہ کار سے ملازمت حاصل کرسکتے ہیں جس سے انہیں انشورنس کی سہولت اور متعلقہ ملک کے قانون، معاشرت اور دیگر معلومات بھی فراہم کی جاتی ہے۔

بیرون ملک ملازمت کے لیے ان اداروں کی توجہ خلیجی ممالک پر ہے۔ یورپی ملکوں میں موجود مواقع پر زیادہ کام نہیں ہورہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ پرموٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان عدنان پراچہ کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں حکومت سے لائسنس یافتہ 2400 پرموٹرز موجود ہیں جنہوں نے گزشتہ سال 8 لاکھ 30 ہزار افراد کو قانونی طریقے کے ذریعے بیرون ملک ملازمت دلوائی ہے۔

اس تمام عمل میں حکومت کے بنائے ہوئے ادارے مناسب کارکردگی دکھانے سے محروم ہیں۔ عدنان پراچہ کے مطابق جاپان اور کوریا کے حوالے سے جن پروموٹرز کو کوٹا دیا گیا ان میں سے کئی پرموٹرز کے پاس دفتر تک نہیں ہے۔ پاکستان کی افرادی قوت بڑی تعداد میں کوریا، جاپان، خلیجی ملکوں کے علاوہ یورپ جاسکتی ہے۔ مگر اس کے لیے حکومتی سطح پر سرگرمی دکھانا ہوگی۔ حکومت اور اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ حکومت خلیجی ملکوں کے علاوہ یورپ میں پاکستانیوں کی ملازمت کے مواقع تلاش کرے معاہدے کرے اور پرموٹرز طے کردہ معیار پر پورے اترنے والے نوجوان تلاش کر کے انہیں بیرون ملک بھجوائیں۔

عدنان پراچہ حکومت کی جانب سے قائم بیرون ملک ملازمت کے اداروں میں افسران کی اقربا پروری اور بدعنوانی پر سخت نالاں نظر آئے ان کے مطابق افسران دیانت اور ایمان داری سے کام کریں تو سالانہ بیرون ملک ملازمت کے لیے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد ایک سال میں دگنی ہوسکتی ہے۔

عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ اگر قانونی طریقہ کار سے جاپان یا کوریا میں ملازمت حاصل کی جائے تو ابتدائی تنخواہ 2 ہزار ڈالرز کے ساتھ مفت رہائش، کھانا اور دیگر سہولیات بھی میسر ہوتی ہیں۔ اسی طرح سے یورپ میں قانونی ملازمت حاصل کرنے پر 1500 سے 1800 یورو کم از کم تنخواہ کے ساتھ مقامی لیبر قوانین کے تحت تحفظ کے علاوہ غیر ملکی ملازمین کو خصوصی مراعات بھی حاصل ہوتی ہیں۔ خلیجی ممالک جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کم سے کم تنخواہ 800 ریال سے 1200 ریال کے درمیان ہوتی ہے اور دیگر قانونی تحفظ بھی حاصل ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں اب غیر تربیت یافتہ اور غیر ہنرمند افرادی قوت کی طلب کم ہوتی جارہی ہے یا یوں کہیں کہ تقریباً بند ہوگئی ہے۔ اب نوجوانوں میں سرٹیفائیڈ تربیت اور متعلقہ ملک کی مقامی زبان سیکھنے کی طلب بڑھ رہی ہے۔ اس حوالے سے عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس کاروبار کو ریگولیٹ کرنا چاہیے جبکہ نجی شعبے کو یا پھر سرکاری اور نجی شعبے کے اشتراک سے تربیتی مراکز قائم کرنے چاہئیں جہاں وکیشنل تربیت کے ساتھ ساتھ جس ملک میں نوجوان ملازمت کرنا چاہتے ہیں وہاں کی زبان اور ثقافت کے بارے میں بھی تربیت دی جائے۔

پاکستان میں اس وقت کئی لاکھ نوجوان ایسے ہیں جو کہ اپنا مستقبل بیرون ملک دیکھتے ہیں مگر آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ وہ غیر قانونی طریقہ کار اپناتے ہوئے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اس عمل کو روکنے کے لیے حکومت کو آگے بڑھ کر نہ صرف انسانی اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا ہوگا بلکہ نوجوانوں کی خواہش اور امیر ملکوں میں افرادی قوت کی طلب کو دیکھتے ہوئے اس عمل کو قانونی طریقے سے سرانجام دینے کو فروغ دینا ہوگا۔ اس حوالے سے پاکستان میں ریاست اور نجی شعبے میں مناسب انفرااسٹرکچر موجود ہے جس کو مزید متحرک، فعال اور ہمہ جہت بنانا ہوگا۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔