پاکستان

2 پاکستانیوں سمیت 5 افراد کو ٹائی ٹینک کا ملبہ دکھانے جانے والی لاپتا آبدوز کی تلاش جاری

دو گھنٹے سے بھی کم وقت کے بعد آبدوز کا سطح سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا، نیشنل گارڈ یونٹ اور کمپنی تلاش کا عمل جاری رکھیں گے۔

ٹائی ٹینک کا ملبے دیکھنے کے لیے جانے والی لاپتا آبدوز جس میں دو پاکستانی بھی سوار تھے، کی تلاش کا عمل جاری ہے۔

اوشین گیٹ ایکسپیڈیشنز نامی کمپنی کی جانب سے چلائی جانے والی 21 فٹ آبدوز نے اتوار کو ٹائی ٹینک کا ملبہ دکھانے کے لیے 5 مسافروں کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا تھا لیکن حکام کے مطابق دو گھنٹے سے بھی کم وقت کے بعد اس کا سطح سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔

امریکی کوسٹ گارڈ نے کہا کہ اس نے شمالی بحرِ اوقیانوس کے دور دراز علاقے کا سروے کرنے کے لیے دو طیارے روانہ کیے ہیں جبکہ کینیڈا نے بھی ایک طیارہ اور ایک جہاز بھیجا ہے۔

لیکن دن بھر جہاز یا کمیونیکیشن سگنلز کی اطلاع کے بغیر امریکی کوسٹ گارڈ کے بوسٹن میں قائم یونٹ نے رات 9 بجے کے قریب ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اس نے آج کے دن کے لیے کام مکمل کر لیا ہے۔

ٹوئٹ میں بالترتیب آبدوز کو لانچ کرنے والے تحقیقی جہاز اور یو ایس ایئر نیشنل گارڈ یونٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پولر پرنس اور ریسکیو 106 شام بھر سطح پر تلاش کا عمل جاری رکھیں گے۔

کینیڈا کے ہوائی جہاز کی مدد سے بھی تلاش جاری ہے۔

پاکستانی تاجر اور بیٹا جہاز میں سوار تھے

پاکستانی تاجر کے اہل خانہ نے ایک بیان میں کہا کہ تاجر شہزادہ داؤد اور ان کا بیٹا سلیمان بھی جہاز میں سوار تھے، باپ اور بیٹے نے ٹائی ٹینک جہاز کے ملبے کو دیکھنے کے لیے اس سفر کا منصوبہ بنایا تھا۔

شہزادہ داؤد پاکستان کے سب سے بڑے ادارے اینگرو کارپوریشن کے وائس چیئرمین ہیں جس نے کھاد، گاڑیوں کی تیاری، توانائی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

کیلیفورنیا میں قائم تحقیقی ادارے ایس ای ٹی آئی کی ویب سائٹ کے مطابق وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ برطانیہ میں رہتے ہیں۔

ایک بیان میں اینگرو کارپوریشن نے کہا کہ اسے صرف اتنا معلوم ہے کہ آبدوز سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا، مزید تفصیلات کا علم نہیں،اس سلسلے میں قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم اینگرو میں ان کی فوری اور محفوظ واپسی کے لیے دعاگو ہیں اور جب بھی وہ آئیں گے تو ہم آپ کو اس حوالے سے آگاہ کریں گے۔

مسافروں میں سے ایک اور کی شناخت برطانوی تاجر ہمیش ہارڈنگ کے نام سے ہوئی ہے جن کے ایوی ایشن بزنس نے اس مہم کے بارے میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی۔

امریکی کوسٹ گارڈ ریئر ایڈمرل جان موگر نے بوسٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ اس دور دراز علاقے میں تلاش کرنا ایک چیلنج ہے لیکن ہم تمام دستیاب وسائل بروئے کار لا رہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہم آبدوز کو تلاش کر سکیں اور اس میں موجود لوگوں کو بچا سکیں۔

اس سلسلے میں وقت انتہائی اہم ہے، آبدوز میں عملے کے پانچ افراد کے لیے 96 گھنٹے کی آکسیجن دستیاب ہے اور جان موگر نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ان افراد کے پاس اب بھی 70 یا اس سے گھنٹے کی آکسیجن موجود ہو گی۔

اوشین گیٹ ایکسپیڈیشن کے ترجمان نے پیر کو دیر گئے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ہم اپنی آبدوز سے ایکسپلوریشن گاڑیوں میں سے ایک کے ساتھ رابطے قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو فی الحال ٹائی ٹینک کے ملبے کے مقام پر جا رہی تھی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ہماری پوری توجہ مسافروں کی حفاظت پر مرکوز ہے اور تمام مسافروں کو بحفاظت واپس لانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

کمپنی غوطہ خوری کے لیے ٹائٹن نامی آبدوز استعمال کرتی ہے جس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی میں جانے کی صلاحیت 4 ہزار میٹر (13ہزار100 فٹ) ہے۔

’وقت گزرتا جا رہا ہے‘

ٹائی ٹینک 1912 میں انگلینڈ سے نیو یارک کے اپنے پہلے سفر کے دوران 2 ہزار 224 مسافروں اور عملے کے ساتھ روانہ ہوا تھا لیکن ایک برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا، اس سانحے میں ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ملبہ دو بڑے حصوں میں 400 میل دور کینیڈا کے ساحل نیو فاؤنڈ لینڈ سے تقریباً 13 ہزار فٹ پانی کے اندر ہے، یہ ملبہ 1985 میں ملا تھا اور یہ سمندری ماہرین اور زیر آب سیاحوں کے لیے انتہائی کشش کا باعث ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن میں میرین انجینئرنگ کے پروفیسر الیسٹر گریگ نے پریس کے ذریعے شائع ہونے والے جہاز کی تصاویر کی بنیاد پر دو ممکنات تجویز کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس میں برقی یا مواصلاتی مسئلہ آ گیا ہے تو یہ تیر رہی ہو گی اور اس بات کی منتظر ہو گی کہ اسے تلاش کر لیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک اور صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پریشر ہل خراب یا لیک ہو گیا ہو جس کے بعد صورتحال اچھی نہ رہی ہو۔

اوشین گیٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم آبدوز سے رابطہ بحال کرنے میں تعاون کرنے پر متعدد سرکاری ایجنسیوں اور دیگر کمپنیوں کے تہہ دل سے شکر گزار ہے۔

ایڈیلیڈ یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ایرک فوسل نے ایک بیان میں کہا کہ وقت گزرتا جا رہا ہے اور گہرے پانیوں کے غوطہ خوروں کو معلوم ہے کہ اس میں غلطی کتنی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، سمندر کے اندر جانا انجینئرنگ کے نقطہ نظر سے خلا میں جانے سے زیادہ مشکل ہے۔