پاکستان

چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی مراعات میں اضافے کا بل پیپلز پارٹی نے مسترد کردیا

بل کا دفاع کرتے ہوئے صادق سنجرانی نے کہا کہ اس کا مقصد چیزوں کو ترتیب دینا اور آڈٹ مسائل حل کرنا ہے جس سے خزانے پر اضافہ بوجھ نہیں پڑے گا۔

پارلیمان کے ایوان بالا کے سابق اور مستقبل کے سربراہان کی مراعات میں اضافے کے لیے تینوں بلوں کی منظوری کے بعد، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ قانون سے قومی خزانے پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک بیان میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے کہا کہ وہ اس بل کو مسترد کرتی ہے اور ملک کو درپیش معاشی حقائق کے پیش نظر اس کی حمایت نہیں کر سکتی۔

گزشتہ ہفتے سینیٹ نے تین بلز منظور کیے تھے جن سے سینیٹ کے سابق اور موجودہ چیئرمینز، ڈپٹی چیئرمینز اور پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے اراکین کی مراعات میں اضافہ ہوگا۔

اضافی مراعات کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد اس بل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جسے 40 سے زائد سینیٹرز بشمول سابق چیئرمین سینیٹ فاروق نائیک اور رضا ربانی نے پیش کیا تھا۔

دیگر مراعات کے علاوہ مجوزہ قانون میں سابق چیئرمینز کے لیے کم از کم 10 ملازمین کی مکمل حفاظتی تفصیلات، حکومت کی جانب سے ان کے گھریلو عملے کے ساتھ ساتھ خاندان کے افراد کے اسپانسر شدہ سفری انتظامات کی شقیں شامل ہیں جبکہ نئے بل کے مطابق چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین کے دفاتر کے ماہانہ اخراجات 6 ہزار روپے سے بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دیے گئے ہیں۔

ایک بیان میں صادق سنجرانی نے دعویٰ کیا کہ اس کا مقصد چیزوں کو ترتیب دینا اور آڈٹ کے مسائل کو حل کرنا ہے، انہوں نے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ مجوزہ قانون سے قومی خزانے پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔

صادق سنجرانی نے دعویٰ کیا کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے سرکاری رہائش گاہ کی تجویز دی گئی ہے کیونکہ اس وقت چیئرمین وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی ملکیت والے گھر میں مقیم تھے۔

سینیٹ کے چیئرمین جو اپنی رہائش گاہ میں رہائش اختیار کرتے تھے وہ ایک لاکھ روپے ماہانہ ہاؤس رینٹ کے حقدار تھے، جسے اب بڑھا کر ڈھائی لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔

سال 1975 کے قانون کے تحت چیئرمین کے دفتری اخراجات کے لیے ماہانہ 6 ہزار روپے مقرر کیے گئے تھے جسے بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دیا گیا ہے، اسی طرح چیئرمین سینیٹ کے لیے یومیہ الاؤنس ایک ہزار 750 روپے سے بڑھا کر 10 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ سفری الاؤنس جو کہ صرف 75 روپے تھا بڑھا کر 5 ہزار روپے کر دیا گیا، مزید برآں اب اندرون ملک سفر کے لیے تمام ایئر لائنز کے ٹکٹ خریدے جا سکتے ہیں جبکہ ماضی میں صرف پی آئی اے کے ٹکٹوں کی اجازت تھی۔

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ طیارہ چارٹر کرنے کی درخواست صرف ان مواقع کے لیے تھی جب چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر بن جاتا ہے۔

ساتھ ہی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے صوابدیدی فنڈ کو بالترتیب 6 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ اور 3 لاکھ روپے سے بڑھا کر 6 لاکھ روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ بل ارکان کو اعتماد میں لیے بغیر منظور کیا گیا۔

تاہم صادق سنجرانی کی وضاحت کچھ اراکین کو راضی کرنے میں ناکام رہی کیونکہ ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے بل پر تنقید کی۔

اس کے علاوہ پی پی پی کی رہنما اور کابینہ کی وزیر شازیہ مری نے ایک بیان میں اپنی پارٹی کو ’متنازع قانون سازی‘ سے دور کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں اس طرح کے اقدام کی مخالفت کرے گی جو ’سنگین اقتصادی چیلنجز کے درمیان قابل قبول نہیں۔‘

ایک مختصر بیان میں شازیہ مری نے کہا کہ پیپلز پارٹی ’چیئرمین سینیٹ (تنخواہ، الاؤنس اور مراعات) ایکٹ 2023‘ کے بل کو مسترد کرتی ہے۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارٹی نے ’اپنے اراکین اور اتحادیوں کو واضح طور پر آگاہ کیا ہے کہ وہ ایسے وقت میں کسی بھی قانون سازی کی حمایت نہیں کرے گی جب ملک کو سنگین معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس بل میں غیر منصفانہ مراعات کی تجویز دی گئی ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

جب ان سے پی پی پی کے سینیٹرز کے خلاف کارروائی کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا جو اس طرح کے بل پیش کرنے والوں میں شامل تھے، تو انہوں نے کہا کہ پارٹی کے پاس احتساب کا ایک مضبوط نظام ہے اور ’ان کے کیسز کو یقینی طور پر صحیح فورم پر اٹھایا جائے گا‘۔

آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ تاخیرکاشکار ہونے پر چین نے مدد کی، وزیراعظم

کیا انتخابات کے نتیجے میں مضبوط حکومت بن سکے گی؟

چین امریکا مذاکرات کا اختتام، تعلقات پر جمی برف پگھلنے لگی