’جانوروں تک ٹھیک ہے، ہم میں عوام کی کھال اتارنے کا حوصلہ نہیں‘
ہم پاکستانیوں کی گوشت سے رغبت کا یہ عالم ہے کہ سبزیاں اور دالیں ہمارے ہاں بس گوشت کے ساتھ پکنے کے لیے پیدا ہوتی ہیں، یوں سمجھ لیں کہ ہماری سیاست ’بُوٹ‘ اور ہماری خوراک بوٹی کے بغیر نامکمل ہے۔
ہماری اس مرغوب غذا کو ہم تک پہنچانے میں قصائی اہم ترین کردار ادا کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا سماج شاعروں، ادیبوں، فلسفیوں اور دانشوروں کے بغیر آرام سے بلکہ خوشی خوشی گزارہ کر سکتا ہے لیکن قصائی کے بغیر اس کے لیے ایک دن بھی بِتانا ممکن نہیں، اپنے اس مقام پر قصائی فخر سے کہہ سکتے ہیں ’جو ہم نہ ہوں تو زمانے کی سانس رک جائے‘۔
ویسے تو قصائی پورے سال ہماری ضرورت رہتا ہے لیکن بقرعید پر تو ’یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو مگر مجھ کو لادو کہیں سے قصائی‘ کی صورت حال ہوتی ہے۔ ہم نے سوچا کہ معاشرے کے اتنے اہم فرد کا انٹرویو کرنا چاہیے، سو ایک قصائی صاحب کے پاس جاپہنچے۔ جاتے ہی بڑے احترام سے سلام کیا، جواباً پان بھرے منہ سے پیک میں غوطے کھاتا اکھڑ سا ’وائیکم سام‘ عطا ہوا۔ ہم نے عرض کی:
’آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں؟‘
یہ سُن کر انہوں نے سُرما چھلکاتی آنکھوں سے ہمیں گھورا اور پیک تھوک کر بولے:
’پوچھ سکتا ہے تو پوچھ لے بھّیے، ویسے اپنی لُگائی میں بھی ہمت نہیں کہ اپنے سے کچھ پوچھ سکے، تجھ میں دم ہے تو پوچھ‘۔
وہ کھڑے ہوگئے اور گردن ٹیڑھی اور کمر پر دونوں مُٹھیاں ٹکا کر ہمیں غصیلی نظروں سے دیکھنے لگے۔
’ارے آپ غلط سمجھے، میں بس کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں‘۔ ہم نے گھبرا کر کہا۔
’سوال؟۔۔۔ اوہو کہیں تُو۔۔۔ مطلب تم۔۔۔ بلکہ آپ وہ تو نہیں؟۔۔۔ ارے سر جی! میرا کسی پالٹی سے کوئی واسطہ نہیں، پھر بھی میں پالٹی چھوڑنے کا اعلان کرتا ہوں۔
وہ بری طرح بوکھلا گئے۔
’پریشان نہ ہوں، میں آپ سے کچھ نہیں چُھڑوارہا، میں صحافی ہوں، آپ کا انٹرویو کرنے آیا ہوں‘۔ ہم نے وضاحت کی۔
’ابے یار تُو نے تو کلیجہ پھاڑ دیا تھا۔ پیلے نئیں بتا سکتا تھا صافی ہوں انٹل ویو کَننا ہے۔ ویسے کون سا والا صافی ہے تُو، بڑے کا یا چھوٹے کا؟‘
انہوں نے ہمارا تعارف جان کر اطمینان کی سانس لی اور جہاں سے اٹھے تھے وہیں بھد سے بیٹھ گئے۔
’چھوٹے کا صحافی اور بڑے کا صحافی سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘
’ابے تُو کوئی پیر ہے یا مجار ہے جو میں تجھ سے منتیں مرادیں مانگوں گا۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ چینل کا ہے یا اخبار کا؟‘
’جی میرا تعلق اخبار سے ہے‘۔
’اچھا، چھوٹے کا ہے، اخبار سے تو اپنا تعلق بھی بہت عرصے تک رہا ہے‘۔
’کیا آپ بھی صحافی تھے؟‘
’بالکل ہی باؤلا ہے بھائی تُو۔ ابے لُل میں تجھے کون سی ’سے ڈ‘ (Side) سے صافی لگتا ہوں؟‘
ہمیں جھاڑنے کے بعد کچھ سوچ کر بولے۔ ’ویسے جے بات تو ہے خسم اللہ پاک کی کھال اتارنے کے ماہر تو تم لوگ ہو۔ ہم تو گائے بکرے کی کھال اتارتے ہیں اور تم بال کی کھال بھی اتار لیتے ہو‘۔
’تعریف کا شکریہ۔ آپ کا اخبار سے تعلق کس نوعیت کا تھا‘؟
’بھیّے اَبّا کے زمانے میں یہ پلاشٹک کی تھیلیاں ویلیاں تو تھیں نئیں۔ تو ہوتا یہ تھا کہ ردی پیپر والے سے اخبار پکڑے، انپیں دے پھاڑم پھاڑ چیتھڑوں میں بانٹا، وِن میں پاؤ، آدھا کلو، کلو گوشت ڈال ڈال کر پڑیاں بنائیں اور گاہکوں کو تھمادیں۔ بس فلم والا صفحہ، جس پر ہیروئنوں کی یہ بڑی بڑی تصویریں ہوتی ہیں، بچاکر دکان کی دیوار پر چپکا دیتے تھے۔
’اجازت ہو تو انٹرویو شروع کریں‘۔ انہیں گفتگو کی طرف مائل دیکھ کر ہم نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔
’واہ بہت سیانڑا ہے، اِتی دیر سے جانور کی پُٹھ پر ہاتھ پھیر رہا تھا، جہاں دیکھا رام ہوگیا دُم پکڑ کر گرا دیا۔ چل پوچھ جو پوچھنا ہے‘۔
انہوں نے شاہانہ انداز میں اجازت دی اور بنیان اٹھا کر پیٹ کُھجاتے ہوئے پاؤں پر پاؤں رکھ کر نیم دراز ہوگئے۔
’بقرعید پر آپ لوگ جانور ذبح کرنے کے اتنے زیادہ پیسے کیوں لیتے ہیں، حالاں کہ یہ تو دینی فریضہ اور ثواب کا کام ہے‘۔
’دیکھ بھئی، سال میں ایک ہی موقع آتا ہے اب بندہ ثواب کمالے یا پیسے کمالے۔ ہمیں بھی بچے پالنا ہیں بھیّے۔ یہ بڑی محنت کا کام ہے۔ ہم جنہیں کاٹتے ہیں وہ جانور ہوتے ہیں شاعر نہیں کہ معشوقہ کے سامنے لم لیٹ ہوجائیں اور بولیں لے بھئی جانو ’کلیجہ رکھ دیا، دل رکھ دیا، سر رکھ دیا‘۔
’ یہ تو صحیح ہے لیکن مہنگائی دیکھتے ہوئے آپ کا دل نہیں پسیجتا؟’
’ہمیں بس جانور کا دل نکال کر رکھنے کی فکر ہوتی ہے۔ اس وَخَت ہمارے سینے میں اپنا نہیں گولمنٹ کا دل ہوتا ہے۔ جبھی تو جانور کو عوام سمجھ کر دَھڑ سے پٹختے ہیں اور چھری پھیر دیتے ہیں۔ بوٹیاں ایسے بناتے ہیں جیسے بجٹ بنتا ہے۔‘
’ایک شکایت یہ بھی ہے کہ آپ جانور ذبح کرکے چھوڑ دیتے ہیں اور دوسرے گائے بکرے گرانے میں لگ جاتے ہیں‘۔
’سوال پر سوال کیے جاریا ہے، ذرا چھری کے نیچے دم تو لے‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے نیا پان منہ میں رکھا اور کچھ دیر چبانے کے بعد گویا ہوئے۔
’بھیّے دیکھ، ہم حکمران نہیں قصائی ہیں۔ یہ حکمرانوں کا چلن ہے کہ چھوٹے جانوروں کو ایک ہی ہَلّے میں کاٹ پیٹ کے برابر کیا اور بڑے جانوروں کے آگے چارا ڈالتے رہے۔ ہمارے لیے سارے جانور برابر ہیں، اس لیے ہم سے برداشت نہیں ہوتا کہ اِدھر کم زور سا بکرا کٹ کر لٹکا ہے اور اُدھر موٹی تازی گائے آرام سے بیٹھی جُگالی کر رہی ہے، اس لیے ہم دھنادھن ایک کے بعد دوسرا گراتے اور کاٹتے چلے جاتے ہیں‘۔
’اور یہ جو آپ جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھال خراب کر دیتے ہیں، کبھی اس پر کَٹ لگ جاتا ہے کبھی گوشت لگا رہ جاتا ہے؟‘
’دیکھ بھائی اب تو مجھے بِھنُّوٹ کر ریا ہے، ایمان سے سری گھوم گئی نا تو۔۔۔‘
اتنا کہہ کر انہوں نے پاس دھرا بُغدا اٹھا کر اس کی دھار سے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا پھر اس کے سرے سے گال کھجانے لگے۔ ان کے تیور دیکھ کر ہماری گھگھی بندھ گئی۔ گھبرا کر کہا ’ارے یہ میں نہیں کہہ رہا، ایسا لوگ کہتے ہیں‘۔
’تو بولنے دے، تو کیوں لوگوں کے درد میں کٹتے بکرے طرح تڑپ ریا ہے بے، انوں نے جو کہہ دیا تو نے مان لیا، لوگوں کی طرف داریاں کرے جاریا ہے، ابے ان کی پھپھو ہے کیا تو؟ کاہے کا تعلیم آفتہ ہے بھئی تو، جس نے جو کہا مان لیا‘۔
’نئیں نئیں، میں تو بس۔۔۔‘ ہم ہکلائے۔
’خیر تو نے پوچھا ہے تو بتاتا ہوں۔ بات یہ ہے جگر ہم کتنے بھی ماہر ہوں بھول چوک ہو ہی جاتی ہے، اب حکومت جیسی مہارت کہاں سے لائیں، کیسے اچانچُک کھال اتارتی ہے وہ بھی زندہ جانور کی اور ایسی استادی سے کہ بے چارے کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ کھال اتر گئی۔ یار تو اخبار والا ہے تیری تو حکمرانوں سے بڑی یاری دوستی ہوگی، میں تو کَؤں اپنے شہباز قریشی اور اسحٰق قریشی سے بول کر ہمیں بھی کھال اتارنے کا فن سکھوادے‘۔
ان کے لہجے میں چربی گُھل گئی۔ ہم اپنے بارے میں ان کی خوش گمانی برقرار رکھنا چاہتے تھے، اس لیے واضح جواب دینے کے بجائے بس ہوں ہاں کی اور اگلا سوال داغ دیا۔
’چلیے کھال اتارنا تو ایک فن ہے، لیکن آپ عجلت میں بوٹیاں اور ہڈیاں بھی تو خراب کر دیتے ہیں، اس پر کیا کہیں گے؟‘
’بس ہمیں پر جلدی کا الزام لگائے جا، یہ بتا یہاں کون جلدی میں نہیں، کوئی الیکسن کروانے کی جلدی میں اپنی پالٹی کی تکابوٹی کرواریا ہے، کوئی الیکسن سے پیلے پیلے کچھ کر دکھانے کی جلدی میں ایسے اچھل کُود کر ریا ہے جیسے قصائی کو دیکھ کر بیل کرتا ہے‘۔
’آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ کو سیاست سے بہت دل چسپی ہے‘۔ ہم نے ذرا شوخ ہوکر انہیں سیاست پر اظہارِخیال کرنے کے لیے اکسایا۔
’دل چسپی؟۔۔۔ ابے ہم سے بڑا سیاست دان کون ہے۔ جانور کو پیار سے گھیر کر میدان میں لانا، اچانچُک جَھٹ سے پٹخ کر ہاتھ پیر باندھ دینا، رحم کھائے بغیر چھری چلادینا، ’ایسا گوشَت دے ریا ہوں ایمان سے گھر میں واہ واہ ہوجائے گی‘۔۔۔ کہہ کر گاہک کو چھیچھڑے اور ہڈیاں پکڑادینا، بقرعید پر ہر ایک کو ’فکر ہی نہ کرو بھیّے سب سے پہلے آپ کا جانور گراؤں گا‘ کا آسرا دے کر انتظار کرواتے رہنا، وخت پڑنے پر اپنے پلے پلائے اور ہلے ہوئے جانور کو ذبح کردینا سیاست میں یہی سب تو ہوتا ہے‘۔
’پھر تو آپ قصاب حضرات کو اپنی سیاسی جماعت بنانی چاہیے، کام یابی ہوگی‘۔
’نہیں بھیّے، جانوروں تک ٹھیک ہے، ہم میں عوام کا گلا کاٹنے اور ان کی کھال اتارنے کا حوصلہ نہیں‘۔
اس جواب کے ساتھ ہی انٹرویو ختم ہوا اور ہم ان کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے چل دیے۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔