پاکستان

امریکا بھارت پارٹنرشپ، پاکستان کی قیمت پر نہ ہو تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، خواجہ آصف

امریکا کو ہماری صورتحال کو سمجھنا چاہیے، ہمیں ایسی صورتحال میں نہیں دھکیلنا چاہیے جہاں ہمیں بہت مشکل انتخاب کرنا پڑے، وزیر دفاع

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان کو امریکا اور بھارت کے بڑھتے تعلقات سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بشرط یہ کہ ان دونوں ملکوں کے بڑھتے تعلقات پاکستان کی قیمت پر نہ ہوں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج شائع ہونے والے نیوز ویک کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران کیا جس میں ان سے بالخصوص مسئلہ کشمیر کے تناظر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات سے متعلق سوال کیا گیا تھا کہ بھارت امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے خیال امریکا کی جانب سے بھارت کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دینے سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے اگر یہ پاکستان کی قیمت پر نہ ہو، پاکستان اپنی پڑوسیوں اور خطے کے پارٹنرز کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری چین کے ساتھ مشترکہ سرحدیں ہیں، ہماری افغانستان، ایران، بھارت کے ساتھ مشترکہ سرحدیں ہیں، اگر ان ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں تو ہم ان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہیں گے، ہم پرامن رہنا چاہتے ہیں، اگر امن نہیں ہے تو ہم کبھی بھی اپنی معیشت کو اس طرح بحال نہیں کرسکیں گے جس طرح ہم اسے بحال کرنا چاہتے ہیں۔

اس سلسلے میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کمزور معیشت ہے اور بہت بڑی معیشت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اہم جغرافیائی محل وقوع ہے جو اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے جو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، اس کی یہ حیثیت بعض اوقات کچھ ایسی چیزوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے جو کہ ہمیں مزید کمزور بنا دیتی ہے۔

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ واشنگٹن کو ہماری صورتحال کو سمجھنا چاہیے اور ہمیں ایسی صورتحال میں نہیں دھکیلا جانا چاہیے جہاں ہمیں کچھ بہت مشکل انتخاب کرنے پڑیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اہم ہیں، اس کی اپنی تاریخ ہے، اس میں کچھ ناکامیاں ہیں، کچھ بہت بڑی ناکامیاں ہیں لیکن پھر بھی ہم امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ان تعلقات میں مزید بہتری آئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم بڑے تجارتی شراکت دار ہیں، امریکا میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد موجود ہے اور وہاں ان کے کاروباری مفادات بھی ہیں، پاکستانی مفادات بھی ہیں، وہ مفادات بہت اہم ہیں، یہ وہ چیز ہے جس میں ہمیں توازن رکھنا ہے، موجودہ معاشی صورتحال میں ہمیں اس میں مشکل ہو رہی ہے لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں۔

وزیر دفاع کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے 18 اور 19 جون کو ہونے والے بیجنگ کے آئندہ دورے اور چند روز بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ واشنگٹن سے پہلے سامنے آیا ہے۔

حالیہ دنوں میں امریکی صدر جو بائیڈن نے بھارت کے ساتھ پرجوش تعلقات کو چین کے بڑھتے اثر و رسوخ پر قابو پانے کی اپنی کوششوں کا اہم اقدام قرار دیا جب کہ ان کی انتظامیہ بھی بھارت کو امریکی فوجی ڈرون خریدنے کے لیے قائل کرنے کی امید کر رہی ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے حال ہی میں کہا تھا کہ امریکا نریندر مودی کے دورے کے دوران بھارت کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی کا تاریخی لمحہ کی توقع کرتا ہے جب کہ چین میں انٹونی بلنکن کا مقصد کشیدگی کو کم کرنا ہے تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ دنیا کی دو بڑی فوجی طاقتیں کسی تنازع میں الجھ نہ جائیں۔

انٹونی بلنکن کے دورہ چین کے حوالے سے خواجہ آصف نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے درمیان معاملات بہتر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان کے لیے امریکا، چین جیسی علاقائی طاقتوں، خلیج عرب میں ہمارے دوستوں، ایران، اور یقیناً روسی فیڈریشن کے ساتھ بھی تعلقات میں توازن برقرار رکھنا مشکل تھا۔

وزیر دفاع نے کہا کہ بین الاقوامی جغرافیائی سیاسی صورتحال بعض اوقات ہمارے لیے مختلف مفاد پرست گروہوں یا مختلف گروپوں جو طاقت اور بین الاقوامی اثر و رسوخ کے لیے تمام وسائل استعمال کر رہے ہیں اور کیونکہ پاکستان اقتصادی اور تزویراتی دونوں لحاظ سے کمزور ملک ہے، اس ان کے درمیان توازن قائم کرنا ہمارے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ اگر ہم اپنے ملک میں معاشی استحکام حاصل کر لیں تو مجھے لگتا ہے کہ ہم واقعی اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہوں گے، ہماری معاشی کمزوری ہمیں بہت سے مسائل سے دوچار کرتی ہے جن سے بعض اوقات ہم نمٹ نہیں پاتے۔

بھارت میں اقلیت مخالف سیاست

بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے بارے میں خواجہ آصف نے کہا کہ ایک دہائی قبل نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی علاقائی سیاست کے بارے میں بھارتی نقطہ نظر مکمل طور پر تبدیل ہو گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ گجرات میں ان کی سیاست کو دیکھیں تو وہاں بھی یہ اقلیت مخالف، فرقہ وارانہ کشیدگی اور اقلیتیوں مسلمان، عیسائی، بدھ مت اور دوسری دیگر کمیونٹیز کے خلاف جذبات کو ہوا دے کر ہندو قوم پرستوں کی حمایت پر ووٹ حاصل کرنے پر مبنی تھی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ اس صورتحال نے دونوں ممالک کے درمیان صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے جس میں بھارت نے ملک کے اندر انتہائی قوم پرستانہ مؤقف اختیار کیا ہے۔

پاکستان کے جوہری اثاثوں کے بارے میں وزیر دفاع نے وضاحت کی کہ وہ کسی جنگی یا دشمنی عزائم کے لیے نہیں بلکہ ملک کی سلامتی کو اجاگر کرنے کے لیے تھے، ہماری جوہری صلاحیت ہماری آزادی کی ضمانت ہے۔

ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی، سعودی وزیر خارجہ اہم دورے پر تہران پہنچ گئے

جنوبی افریقہ کی ویمن کرکٹ ٹیم ستمبر میں پاکستان کا پہلا دورہ کرے گی

معلوم نہیں حسنین لہری اور نمرہ جیکب کے درمیان کس بات پر جھگڑا ہوا تھا، انوشے اشرف