عطا تارڑ کا اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج پر ’زمینوں کے قبضے‘ میں ملوث ہونے کا الزام
مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا اللہ تارڑ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک موجودہ جج پر زمینوں پر قبضے اور غلط اثاثے طاہر کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے تنقید کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ تنقید سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف مبینہ طور پر جانبداری اور آمدن کے معلوم ذرائع سے زائد اثاثے جمع کرنے کے حوالے سے دائر کیے جانے والے ریفرنس کے بعد سامنے آئی۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عطا تارڑ نے جج کے خلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا اور سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ ان کے خلاف الزامات کی تحقیقات کرے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کے احتساب کا واحد فورم سپریم جوڈیشل کونسل عدلیہ میں موجود کچھ کالی بھیڑوں کی ملی بھگت کی وجہ سے بے کار ہو گیا ہے۔
عطا تارڑ، جو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ بھی ہیں، نے کہا کہ اس ملی بھگت کی وجہ سے بدعنوانی، بدعنوانی اور سرکاری عہدوں کے غلط استعمال میں ملوث افراد بری ہو جاتے ہیں۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے موجودہ جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف ریکارڈ پر لائے گئے بھاری ثبوتوں کے باوجود کارروائی نہیں کی۔
جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف ریفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے عطا تارڑ نے الزام لگایا کہ وہ لیک ویو لین ہاؤسنگ سوسائٹی کے شیئر ہولڈر تھے جس نے کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور دریائے کورنگ کی زمین پر قبضہ کیا تھا۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ جج کا ہاؤسنگ سوسائٹی میں 18 فیصد حصہ تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے دعویٰ کیا کہ سوسائٹی نے متعلقہ حکام کی منظوری کے بغیر کروڑوں روپے مالیت کی زمین فروخت کی اور ٹیکس چوری کے مقصد کے لیے رجسٹرڈ نہیں کی گئی۔
عطا تارڑ نے دعویٰ کیا کہ جج اور ان کے خاندان کے افراد اکثر بزنس کلاس میں بیرون ملک سفر کرتے ہیں اور مبینہ طور پر ایسے دوروں پر 2 لاکھ 14 ہزار ڈالر خرچ کیے جاچکے ہیں۔
انہوں نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے درخواست کی کہ وہ ان الزامات کا نوٹس لیں اور جج سے ان کے اثاثوں کے بارے میں دریافت کریں۔
جج کے خلاف ایک اور ریفرنس دائر
اس کے علاوہ جمعہ کو جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف مبینہ طور پر جانبداری اور ترقیوں میں سینئر ججوں کو نظرانداز کرنے پر دوسرا ریفرنس دائر کردیا گیا۔
ایک ’محب وطن شہری‘ کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی گئی شکایت میں الزام لگایا گیا تھا کہ جسٹس محسن اختر کیانی نے ماتحت عدلیہ کے ان ججوں کو ترقی دی جو ان کی لا فرم میں کام کر رہے تھے۔
شکایت میں الزام لگایا گیا کہ جج نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد میں درج اخلاقی پستی سے متعلق مقدمے میں قریبی رشتہ دار کو بری کیا۔
جمعرات کو دائر ریفرنس میں بھی اسی طرح کے الزامات لگائے گئے تھے جو خیبر پختونخوا بار کونسل کے وکیل مرتضیٰ قریشی نے دائر کیا تھا۔
یہ شکایات ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب پارلیمنٹ کی ایک خصوصی کمیٹی اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے خلاف تادیبی کارروائی سے متعلق آئین کے آرٹیکل 209 کا جائزہ لے رہی ہے۔