تحریک لبیک پاکستان کا اسلام آباد کی جانب مارچ جاری رکھنے کا اعلان
جہاں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے اسلام آباد کی جانب اپنا مارچ معطل نہ کرنے کا اعلان کیا وہیں حکومت نے دعویٰ کیا کہ پارٹی کے ساتھ مذاکرات کے دوسرے دور کے بعد اہم معاملات طے پا گئے ہیں، لیکن متفقہ نکات میں وہ مطالبہ بھی شامل ہے جو ٹی ایل پی نے کیا بھی نہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام پُرامید تھے کہ ٹی ایل پی کا ’پاکستان بچاؤ مارچ‘ راولپنڈی ضلع میں داخل ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا اور جڑواں شہروں میں سیکیورٹی اور ٹریفک کے انتظامات کے لیے کوئی انتظامات نہیں کیے جارہے تھے۔
تاہم پارٹی نے جمعرات کی شام کو اعلان کیا کہ اس کے مارچ کی منزل اسلام آباد ہے اور یہ اب بھی جاری ہے کیونکہ حکومت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا ہے۔
22 مئی کو کراچی سے روانہ ہونے والے مارچ کو سرائے عالمگیر میں رات کے آرام کے بعد (آج) جمعہ کو دریائے جہلم عبور کرنا ہے، جس کے بعد وہ راولپنڈی کی جانب بڑھیں گے۔
دریں اثنا ایک دو رکنی حکومتی کمیٹی نے ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا دور منعقد کیا تاکہ پارٹی کو وفاقی دارالحکومت کی جانب مارچ ختم کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔
مذاکرات میں وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور وزیر اقتصادی امور سردار ایاز صادق نے شرکت کی۔
ٹی ایل پی کی نمائندگی ڈاکٹر شفیق امینی، غلام عباس فیضی، مفتی محمد عمیر الازہری، مولانا غلام غوث بغدادی اور جیلان شاہ نے کی۔
چھ نکات پر اتفاق
وزارت داخلہ نے ملاقات کے بعد کہا کہ مذاکرات میں چھ نکاتی مفاہمت سامنے آئی ہے، جس میں حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی بھی شامل ہے کہ وہ پیمرا اور پی ٹی اے، الیکٹرانک میڈیا اور ٹیلی کام سیکٹر کے ریگولیٹرز کو دی گئی تمام ہدایات واپس لے لے گی جس سے ٹی ایل پی میڈیا کوریج سے محروم ہوگئی تھی۔
یہ اقدام اس بات کو یقینی بنائے گا کہ پارٹی کو میڈیا کوریج ملے اور وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے اکاؤنٹس چلانے کے قابل ہو۔
ٹی ایل پی کا ایک اور اہم مطالبہ توہین مذہب کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف تیز رفتار ٹرائل کا تھا، وزارت نے مزید کہا کہ حکومت نے سوشل میڈیا سے گستاخانہ مواد کو ہٹانے کے لیے فلٹرنگ سسٹم نصب کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
تیسرا مطالبہ معزز شخصیات اور مقامات کی توہین کو روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے ’کاؤنٹر بلاسفیمی ڈپارٹمنٹ‘ کا قیام تھا۔
چوتھا نکتہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی جیل سے رہائی سے متعلق ہے، ٹی ایل پی چاہتی تھی کہ وزارت خارجہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے تین کام کے دنوں میں امریکی حکومت کو خط لکھے۔
وزارت داخلہ کے بیان کا ایک دلچسپ پہلو یہ تھا کہ ٹی ایل پی کے مطالبات کی فہرست میں آخری نکتہ یعنی عافیہ صدیقی کی رہائی شامل نہیں تھی۔
حکومتی ہینڈ آؤٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کا اطلاق تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے فرد پر کیا جائے گا۔‘
دفعہ 295 سی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز کلمات کے استعمال سے متعلق ہے۔