پاکستان

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کےخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر

جج کے خلاف ریفرنس مبینہ طور پر جانبداری اور ان کے معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر ایک وکیل کی جانب سے دائر کیا گیا۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف مبینہ طور پر جانبداری اور ان کے معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثے بنانے پر ریفرنس دائر کردیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شکایت گزار خیبرپختونخوا بار کونسل (کے بی سی) کے وکیل مرتضیٰ قریشی نے جج کے خلاف ایک ایسے وقت میں ریفرنس دائر کیا جب پارلیمنٹ کی ایک خصوصی کمیٹی آئین کے آرٹیکل 209 کا جائزہ لے رہی ہے، جو کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججز کے خلاف تادیبی کارروائی سے متعلق ہے، کیونکہ یہ آئینی شق عملی طور پر بے کار ہو چکی ہے۔

انہوں نے جسٹس محسن اختر کیانی پر اسلام آباد کی ماتحت عدلیہ کے ججوں کی ترقی میں جانبداری کا الزام لگایا اور ریئل اسٹیٹ کے کاروبار پر بھی روشنی ڈالی جس میں جج مبینہ طور پر شیئر ہولڈر ہیں۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ جج بننے کے بعد انہوں نے ان جوڈیشل افسران کو ترقی دی جو ان کی سابقہ قانونی فرم کا حصہ تھے اور دیگر ججوں کے کیریئر کو تباہ کردیا جنہیں پہلے ڈیپوٹیشن پر اور بعد میں وفاقی دارالحکومت کی عدلیہ میں شامل کیا گیا تھا۔

شکایت گزار کا کہنا تھا کہ جج جب اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر تھے تو انہوں نے مبینہ طور پر ان ججوں کے تبادلے کے لیے کوششیں کی جو صوبوں سے ڈیپوٹیشن پر وفاقی دارالحکومت میں کام کر رہے تھے۔

اسلام آباد کی عدلیہ کے تقریباً دو درجن ججوں نے اسلام آباد کے چیف جسٹس کے سامنے منفی کارکردگی کی جانچ کی رپورٹوں کے خلاف نمائندگیاں دائر کی ہیں، ان میں سے کچھ نے سروس ٹربیونل کے سامنے اپنی بالادستی کو چیلنج بھی کیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق پہلے ہی ججوں کی شکایات کے ازالے کے لیے دو رکنی کمیٹی تشکیل دے چکے ہیں۔

شکایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ معزز جج جوڈیشل سروس ٹربیونل کے چیئرمین ہیں اور ماتحت عدلیہ کے متاثرہ ججوں کی جانب سے دائر اپیلوں کو نمٹانے میں تاخیر کر رہے ہیں۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ جج نے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اثاثوں کی مالیت 5 سے 6 کروڑ روپے ظاہر کی جبکہ ان کے اصل اثاثوں کی مالیت ایک ارب 87 کروڑ 70 لاکھ روپے ہے۔

شکایت گزار نے سپریم جوڈیشل سے درخواست کی کہ وہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ان الزامات کی باقاعدہ انکوائری کرے۔