پاکستان

فوجی قوانین کے تحت مقدمات بین الاقوامی معاہدوں کے تحت منصفانہ ٹرائل کے تقاضے پورے کرتے ہیں، وزیر قانون

فوجی قوانین کے تحت مقدمات کے معاملات کا فیصلہ قانون کے مطابق کیا جائے گا، یہ وفاقی حکومت یا کسی ادارے کا انتخاب نہیں ہے، اعظم نذیر تارڑ

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ فوج کے قوانین کے تحت مقدمات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں جو کہ منصفانہ ٹرائل کی بنیاد ہیں۔

اسلام آباد میں سپریم جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے فوجی عدالتوں میں مقدمات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات کے حوالے سے بین الاقومی معاہدوں کے مطابق چلا جائے گا۔

وزیر قانون کا ایسا بیان تقریباً ایک ماہ قبل حکومت کی طرف سے 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث افراد کے خلاف فوجی قوانین کے تحت مقدمات چلانے کے فیصلے کے بعد آیا ہے۔

اپنی دلیل کو تقویت دینے کے لیے وزیر قانون نے بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق 1966 کے آرٹیکل 14 کا حوالہ دیا جو منصفانہ مقدمے کی سماعت کے حوالے سے ہے جس میں ان کے بقول ملزم کو مرضی کا وکیل مقرر کرنے، اپنے دفاع میں شواہد، ثبوت فراہم کرنے ، متعلقہ ریکارڈ تک رسائی حاصل کرنے اور فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کا حق دیا گیا ہے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فوج کے قوانین ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں اور اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ طریقہ کار اور قانون سے متعلق بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا فوجی قوانین کے تحت خواتین کے ٹرائل کے حوالے سے کوئی خصوصی تحفظات پر غور کیا جا رہا ہے، اس پر وزیر قانون نے جواب دیا کہ فوجی قوانین کے تحت مقدمات کے معاملات کا فیصلہ قانون کے مطابق کیا جائے گا، یہ وفاقی حکومت یا کسی ادارے کا انتخاب نہیں ہے۔’

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ متعلقہ ادارہ اس سلسلے میں مقدمہ چلائے گا کہ وہ دستیاب مواد سے کیسے مطمئن ہیں۔

وزیر قانون نے کہا کہ اب تک کسی خاتون کا کوئی کیس فوجی عدالت میں نہیں بھیجا گیا۔

وزیر قانون کا یہ بیان 9 مئی کے واقعات میں ملوث مشتبہ افراد پر فوج کے قوانین کے تحت مقدمہ چلانے کے حکومتی فیصلے پر تشویش کے دوران آیا ہے۔

خیال رہے کہ 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا جس کے دوران فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا جس کے بعد ریاست نے ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا۔

بعدازں پاک فوج نے 9 مئی کو ’سیاہ باب‘ قرار دیتے ہوئے ملوث افراد کے خلاف متعلقہ قوانین بشمول فوجی قوانین کے تحت مقدمات چلانے کا اعلان کیا تھا۔

نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں اس فیصلے کی توسیع کی گئی تھی جبکہ حقوق تنظیموں اور کارکنان نے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی۔

تاہم پی ٹی آئی نے عام شہریوں پر فوجی قوانین کے تحت مقدمات چلانے کے وفاقی حکومت کے فیصلے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ ماہ وضاحت کی تھی کہ وہ لوگ جنہوں نے سولین تنصیبات و املاک کو نقصان پہنچایا ان کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے اور جنہوں نے عسکری تنصیبات پر حملے کیے ان کے خلاف فوجی قانون کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے۔

اب تک لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 9 مئی کے 16 مشتبہ افراد کو فوج کے حوالے کرنے کی منظوری دی ہے اور راولپنڈی کی ایک عدالت نے مزید 8 مشتبہ افراد کے حوالے کرنے کی منظوری دی.

دونوں مقامی عدالتوں کے احکامات کے دوران وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کے جرم میں پنجاب میں 19 اور خیبرپختونخوا میں 14 ملزمان کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔

واٹس ایپ میں ویڈیو میسیج بھیجنے کے نئے فیچر کی آزمائش

شوبز شخصیات کا عوام کو ’بائپر جوائے‘ سے متعلق حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ

ریویو ایکٹ لاگو ہوا تو ازخود نوٹس والے سب کیسز دوبارہ کھل جائیں گے، جسٹس منیب اختر