پاکستان

الیکشن کمیشن کی تیاری کے باوجود حکومت انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کرنے سے گریزاں

کمیشن نے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے ضروری تیاریاں کر لی ہیں لیکن سیاسی جماعتیں انتخابات کے بارے میں غیر یقینی کا شکار نظر آتی ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کا کہنا ہے کہ اس نے ملک میں کسی بھی وقت عام انتخابات کے انعقاد کے لیے ضروری تیاریاں کر لی ہیں لیکن اس کے باوجود سیاسی جماعتیں انتخابات کے بارے میں غیر یقینی کا شکار نظر آتی ہیں اور حکومت اس سال انتخابات کرانے کا کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے گریزاں ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیویلپمنٹ (پلڈاٹ) کے زیر اہتمام ایک فورم پر طویل بحث کا نتیجہ تھا، جس کا عنوان تھا کہ ’الیکشن کمیشن آف پاکستان آزادانہ اور منصفانہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے کتنا تیار ہے؟‘، منگل کو منعقدہ اس فورم میں جس میں الیکشن کمیشن کے نمائندوں، بڑی سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور صحافیوں نے شرکت کی۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اکتوبر یا نومبر میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے کوئی وعدہ کرنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئے جبکہ سندھ کے اراکین اسمبلی نے زور دے کر کہا کہ حال ہی میں الیکشن کمیشن کی جانب سے کی جانے والی غلط مردم شماری اور 2017 کی مردم شماری پر کی گئی حدبندی کی بنیاد پر ان کے لیے اگلے انتخابات کو قبول کرنا مشکل ہو گا۔

اس موقع پر وزیر قانون نے خطاب کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ملک جلد انتخابات کی پیش قدمی کرے گا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کی زیر قیادت حکمران نے عزم مصمم کیا تھا کہ حکومت قوانین اور آئین کی پاسداری کی پابند ہے اور اس کی آئینی مدت اگست میں ختم ہو رہی ہے۔

تاہم، جب پلڈاٹ کی موڈریٹر آسیہ ریاض نے وزیر قانون کے ریمارکس کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ وزیر نے عزم کیا ہے کہ حکومت کی مدت میں توسیع کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور یہ کہ انتخابات وقت پر ہوں گے، تو اعظم نذیر تارڑ نے واضح کیا کہ ان کا ماننا ہے کہ فی الحال ایسی کوئی صورتحال درپیش نہیں ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے اس کے بعد شرکا سے کہا کہ وہ دعا کریں کہ انہیں آئین کے آرٹیکل 232 یا 234 کو استعمال کرنے کی ضرورت نہ پڑے اور یہ عندیا دیا کہ وہ خاص حالات میں موجودہ حکومت کی مدت میں توسیع کے امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کر رہے ہیں۔

آرٹیکل 232 ’جنگ، اندرونی خلفشار کی وجہ سے ہنگامی حالت کے اعلان‘ کا جواز فراہم کرتا ہے جب کہ آرٹیکل 234 ’کسی صوبے میں دستور نظام کی ناکامی کی صورت میں اعلان جاری کرنے کے اختیار‘ سے متعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔

اس سے قبل، اعظم تارڑ نے الیکشن کمیشن کے قانونی اختیار پر زور دیتے ہوئے انتخابات کی تاریخ طے کرنے میں کمیشن کے کردار پر زور دیا، انہوں نے گزشتہ سال الیکشن کمیشن کو درپیش مالی مساءل کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا الیکشن کمیشن ایک مضبوط ادارہ ہے اور اب یہ رکاوٹیں نہیں رہیں۔

وزیر قانون نے یہ بھی کہا کہ حالیہ سیاسی واقعات کے تناظر میں کچھ قوانین اور آئین میں تبدیلی کی ضرورت ہے، وزارت قانون نے تجویز دی ہے کہ مستقبل میں اگر کوئی مقننہ وقت سے پہلے تحلیل ہو جاتی ہے تو انتخابات پانچ سال کے بجائے بقیہ مدت کے لیے کرائے جائیں، اسی طرح متعدد نشستوں پر الیکشن لڑنے کے معاملے پر بھی کچھ تجاویز شامل تھیں۔

وزیر قانون کا خیال تھا کہ اگر ماضی میں نگراں سیٹ اپ کے تحت انتخابات کا نظام ہوتا تو ملک میں 1977 کے عام انتخابات کے بعد مارشل لا کا نفاذ نہ ہوتا، انہوں نے کہا کہ حکومت الیکشن کمیشن کی تجاویز پر ایسا کرنے کو تیار ہے۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے اکتوبر میں انتخابات کے انعقاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ وزیر قانون نے جو امید ظاہر کی ہے، وہ حقیقت میں بدل جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن یہ کہتا ہے کہ وہ انتخابات نہیں کروانا چاہتا تو یہ بہت حیران کن ہوگا، انہوں نے فنڈز اور سیکیورٹی اہلکاروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے انتخابات کے انعقاد سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

مردم شماری کا مخمصہ

اس سے قبل الیکشن کمیشن کے اسپیشل سیکریٹری ظفر اقبال نے اس سال دسمبر میں ختم ہونے والے الیکشن کمیشن کے تیسرے اسٹریٹجک پلان کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کے بارے میں ایک جامع اپ ڈیٹ فراہم کی، انہوں نے کہا کہ کمیشن نے اپنے اسٹریٹجک پلان پر 90فیصد عمل درآمد مکمل کر لیا ہے اور اعتماد کے ساتھ اعلان کیا کہ کمیشن عام انتخابات کے انعقاد کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

ایک سوال کے جواب میں الیکشن کمیشن کے عہدیدار نے کہا کہ اب تک نادرا کی جانب سے اگلے انتخابات کے لیے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) کے استعمال کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

کراچی سے ایم کیو ایم-پی کے ایم این اے ابوبکر نے حال ہی میں ختم ہونے والی مردم شماری کے تحت انتخابات کے انعقاد کے جواز پر سوال اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ ہم آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی بات کرتے ہیں لیکن آزادانہ اور منصفانہ مردم شماری کی بات نہیں کرتے، ایم کیو ایم پی کے رکن قومی اسمبلی نے اعلان کیا کہ سندھ کے عوام غلط مردم شماری کے نتائج کو شاید قبول نہ کریں اور دعویٰ کیا کہ کراچی کی آبادی 3کروڑ 5لاکھ کو چھو چکی ہے جبکہ مردم شماری اسے دو کروڑ بتا رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینئر سینیٹر تاج حیدر نے بھی ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مردم شماری کے بغیر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ممکن نہیں ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ سندھ کی آبادی ساڑھے آٹھ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ مردم شماری کے مطابق یہ 5کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔

وزیر اعظم کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد نے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو آزادانہ، منصفانہ اور قابل اعتماد انتخابات کے انعقاد کی اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے کے لیے پورے جمہوری معاشرے، شہریوں اور جماعتوں کی حمایت اور تعاون کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج بھی اہم تھے تاکہ انتخابی کیلنڈر میں خلل نہ پڑے۔

’بائپر جوائے‘ کراچی سے تقریباً 310 کلومیٹر دور، آج کیٹی بندر سے ٹکرانے کا امکان

’ہم اپنے اندر ہی دشمن تلاش کررہے ہیں‘

بعض خواتین پیسے اور شہرت دیکھ کر مردوں سے پیار کرتی ہیں، شہروز سبزواری