نقطہ نظر

’کوئی ملک تولیے فروخت کرکے زرمبادلہ ذخائر نہیں بڑھا سکتا‘

'چاہے کتنی ہی رکاوٹیں کیوں نہ ہوں، معیشت میں ہمیشہ سخت فیصلوں کی گنجائش ہوتی ہے'.

’حکومت کے لیے جوڑ توڑ کی محدود گنجائش اور اسے جن رکاوٹوں سے نمٹنا پڑا، انہیں مدِنظر رکھا جائے تو یہ بجٹ ٹھیک ہے۔ اگر ہم ’مقدس گایوں‘ کو ہاتھ نہیں لگانا چاہتے، خسارے میں چلنے والے سرکاری کاروبار کو بیچنا نہیں چاہتے (جو حکومت کی کمزور مالیاتی حالت کو مزید خراب کررہے ہیں) یا توانائی کے شعبے کو ٹھیک نہیں کرنا چاہتے ہیں، تو (نیا) بجٹ ٹھیک ہے‘۔

یہ کہنا تھا ملک کے سب سے بڑے اور متنوع کاروباری اداروں میں سے ایک، نشاط گروپ کے چیئرمین اور ایم سی بی بینک کے مالک میاں منشا کا، جنہوں نے حال ہی میں ڈان کو انٹرویو دیا۔

میاں منشا کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ہم اس معیشت کو مسابقتی بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ ہمیں ساختی مسائل کو حل کرنا ہوگا اور معیشت کو نقصان پہنچانے والے بنیادی مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ میں آپ کو ایک اور بات بتاتا ہوں، چاہے کتنی ہی رکاوٹیں کیوں نہ ہوں، معیشت میں ہمیشہ سخت فیصلوں کی گنجائش ہوتی ہے‘۔

’ہمیں کاروباری اور سرمایہ کاری کے لحاظ سے دوستانہ ماحول پیدا کرنے کے لیے معیشت کے بنیادی عوامل کو درست اور اقتصادی بنیادوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے انصاف کے نظام، قانون نافذ کرنے کے عمل، تعلیم اور بیوروکریسی کو درست کرنا ہوگا اور جو جو کاروبار حکومت کے کرنے کے نہیں ہیں ان میں سے نکل کر حکومت کو ڈاؤن سائز کرنا ہوگا۔

’جب آپ یہ سب بنیادی تبدیلیاں کرلیں گے تو آپ باآسانی معیشت میں بہتری لاسکیں گے اور اپنے دیرینہ مسائل (کم ٹیکس بیس اور بے حد کم ٹیکس وصولی) کو حل کرسکیں گے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں ایک ایسی اتحادی حکومت کی ضرورت ہے جو اصلاحات لانے کے لیے تیار ہو اور جو معیشت میں بنیادی ساختی تبدیلیاں لانے پر اتفاق کرتی ہو‘۔

میاں منشا کے خدشات بھی کاروباری برادری کی مایوسی کے عکاس ہیں۔ یہ مایوسی انہیں حکومت کی جانب سے اس بجٹ میں سخت فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ زیادہ تر لوگ محسوس کرتے ہیں کہ آئندہ سال کے لیے ملک کے مالی منصوبے کی تفصیلات میں ریئل اسٹیٹ، خرید و فروخت اور زرعی زمینوں سے ہونے والی آمدنیوں کو شامل نہ کرکے ٹیکس بیس میں توسیع کرنے جیسے حساس مسائل کے لیے بہتر حل پیش نہیں کیے گئے ہیں۔

بلکہ حکومت نے کارپوریٹ سیکٹر پر ٹیکس بوجھ کو بڑھا دیا ہے جو پہلے بھی ٹیکس ادا کررہا تھا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ اگر ٹیکس چور ہیں تو آپ اسی طرح ملک میں رہ سکتے ہیں اور کوئی بھی آپ کو پریشان نہیں کرے گا۔ لیکن میاں منشا نے جن ’سخت فیصلوں‘ کا ذکر کیا اُن کا ان کا ایسے خدشات سے تعلق نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ٹیکسیشن ہمارا اصل مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے اصل مسائل کافی سنگین ہیں۔ ہمیں بڑے منظرنامے پر نظر ڈالنی چاہیے۔ یہ بیماری نہیں بلکہ اس کی علامات ہیں۔ ہمیں پہلے بیماری کا علاج کرنا چاہیے تو علامات خود بخود ختم ہو جائیں گی۔ مجھے ایک ایسا ماحول چاہیے جہاں لوگ اپنے کاروبار کو وسعت دے سکیں، جہاں لوگوں کے پاس روزگار ہو، اور جہاں لوگوں کے پاس پیسہ ہو‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں اپنے ریگولیٹری ماحول کو بہتر بنانے اور نظام کو کارآمد بنانے کی ضرورت ہے جبکہ لوگوں کو سرمایہ کاری اور کام کرنے کے لیے مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔ جب ہم ایسا ماحول پیدا کرلیں گے تو ہمارا ٹیکس نیٹ اور وصولی بھی بڑھ جائے گی‘۔

وہ کہتے ہیں کہ برآمدات بڑھا کر ملک اپنے کم ہوتے زرمبادلہ ذخائر بحال نہیں کرسکتا اور نہ ہی ادائیگیوں کے توازن کے مسائل سے نمٹ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’کوئی بھی ملک تولیے فروخت کرکے زرمبادلہ کے ذخائر نہیں بڑھا سکتا۔ اگر آپ اپنے بیرونی شعبے کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور ذخائر بڑھانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو مقامی اور غیر ملکی نجی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنا ہوگا۔

’بھارت نے اسی طرح کیا ہے، (پاکستان کے برعکس) اس نے 1991ء سے آئی ایم ایف سے صرف ایک پروگرام لیا اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ غیرملکی کمپنیاں بھارت میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کیوں کہ بھارت نے سرمایہ کاروں اور سرمایہ کاری کو آسان بنانے کے لیے سخت اصلاحات کی ہیں۔

’دوسری جانب ہم غیرملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان سے بھاگتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ یہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہے اور کوئی بھی معاہدے کا احترام نہیں کرتا۔ قانون کی حکمرانی اور معاہدے کا احترم کرکے سری لنکا بھی اسی طرح کے بحران سے باہر آیا۔ اگر لوگوں کے پاس بہتر مواقع ہوں تو وہ کیوں یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہیں گے؟‘ یہ سوال میاں منشا نے کیا جنہوں نے صرف ایک ٹیکسٹائل مل سے آغاز کرتے ہوئے ایک کاروباری سلطنت قائم کی۔

انہوں نے اصرار کیا کہ ’ایک بار جب آپ سرمایہ کاروں میں اعتماد پیدا کردیں گے تو وہ اپنا سرمایہ معیشت میں لگانا شروع کر دیں گے۔ یوں ہمارے بہت سے مسائل جیسے ادائیگیوں کے توازن کے مسائل، کم صنعتی اور زرعی پیداوار، برآمدات اور ٹیکس محصولات وغیرہ حل ہوسکتے ہیں۔ پھر آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔ آپ کو صرف معیشت کا حجم بڑھانا ہے اور اس ملک کو سرمایہ کاروں کے لیے موزوں بنانا ہے‘۔

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنے پڑوسیوں بھارت، ایران اور افغانستان کے ساتھ علاقائی تجارت کو مزید فروغ دینا چاہیے۔ ’جب ہم افغانستان کے ساتھ تجارت کی بات کرتے ہیں تو ہم درحقیقت اس سے آگے وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں۔ ہم صرف اُن لینڈ لاک ریاستوں کو دنیا تک رسائی دے کر اربوں ڈالر کما سکتے ہیں۔

’اسی طرح ہندوستان کے ساتھ تجارت (دوبارہ بحال کرکے) بہت سے کاروباری مواقع کھلیں گے۔ اگر چین اپنے علاقائی تنازعات کے باوجود بھارت کے ساتھ متحرک تجارتی اور کاروباری تعلقات قائم رکھ سکتا ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ میرے خیال میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ اور آپ پڑوسیوں کو بدل بھی نہیں سکتے‘۔

گفتگو کے اختتام پر میاں منشا نے کہا کہ ’ہمیں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تنازعات سلجھانے کی ضرورت ہے۔ اب جو بھی مسائل رکاوٹ بن رہے ہیں، انہیں اپنی جگہ رہنے دیں۔ لیکن ایک بار جب لوگ تجارت اور سیاحت کے ذریعے ایک دوسرے کے ممالک میں آنے لگیں گے تو مجھے لگتا ہے کہ مواقع ملنا شروع ہوجائیں گے‘۔


یہ مضمون 12 جون 2023ء کو ڈان بزنس اینڈ فنانس ویکلی میں شائع ہوا۔

ناصر جمال
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔