لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کےخلاف جماعت اسلامی کی درخواست 13 جون کو سماعت کیلئے مقرر
سندھ ہائی کورٹ نے جماعت اسلامی کی جانب سے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دیگر مدعا علیہان کو نوٹسز جاری کر دیے، ترمیم سے غیر منتخب افراد کے میئر اور ڈپٹی میئر بننے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے 7 جون کو سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ آئین میں ترمیم کو غیر قانونی، قانونی اختیار اور قانونی اثر کے بغیر قرار دیا جائے۔
درخواست گزار کے وکیل نے پٹیشن دائر کرتے ہوئے درخواست کی فوری سماعت کی استدعا کی کیونکہ کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب 15 جون کو ہونا ہے۔
جسٹس یوسف علی سعید کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی اور ریمارکس دیے کہ یہ فوری نوعیت کا معاملہ ہے۔
درخواست پر سماعت کی اجازت دیتے ہوئے بینچ نے مدعا علیہان اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو 13 جون کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔
درخواست گزار نارتھ ناظم آباد میں یونین کمیٹی کے منتخب چیئرمین اور میئر کراچی کے عہدے کے لیے جماعت اسلامی کے امیدوار بھی ہیں۔
پیپلز پارٹی نے متنازع ترمیم کے بعد اسی عہدے کے لیے غیر منتخب مرتضیٰ وہاب کو میدان میں اتارا ہے۔
جماعت اسلامی کے درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ غیر قانونی ترمیم سے ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ گزشتہ ماہ صوبائی اسمبلی نے ایس ایل جی اے کے سیکشن 3 میں ترمیم کی تھی جس کے تحت غیر منتخب افراد کو ضلعی میونسپل کارپوریشن یا ضلع کونسل کا میئر/ڈپٹی میئر اور چیئرمین/وائس چیئرمین بننے کی اجازت دی گئی تھی اور اس حوالے سے 24 مئی نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا تھا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ زیر بحث ترمیم اس وجہ سے غیر قانونی ہے کہ نمائندہ جمہوریت ان افراد کو ایگزیکٹو اتھارٹی دینے پر مبنی ہے جو منتخب نمائندے ہوں۔
وکیل نے مزید کہا کہ غیر ترمیم شدہ قانون کی اسکیم کے تحت میئر/چیئرمین کے عہدے کے لیے کسی ایسے شخص پر غور کیا جائے گا جو انتخابی عمل کی سختیوں مثلاً امیدواری کے لیے اثاثوں کا اعلان، لوگوں کو اعتراض کرنے کا موقع دینے سمیت دیگر معاملات سے گزرا ہو۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ مذکورہ ترمیم کو 31 دسمبر 2021 سے نافذ کیا گیا تھا جس کے تحت ایک غیر منتخب شخص کو چیئرمین یا میئر کے عہدے پر کام کرنے کی اجازت دے کر ماضی اور بند انتخابی عمل کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔
وکیل نے کہا کہ اسی سے درخواست گزار کے اس حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے یعنی انتخابی عمل کے انعقاد کے وقت جو قانون نافذ تھا۔
ای سی پی صوبہ سندھ کو صوبائی کابینہ اور کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ذریعے فریق بناتے ہوئے درخواست گزار نے استدلال کیا کہ غیر قانونی ترمیم ایڈہاک اور بار بار ہونے والے انتخابات/میئر/چیئرمین کے عہدوں پر افراد کے تقرر کے لیے تیار کی گئی تھی جب کہ آئین کی منشا یہ ہے کہ طاقت اور اختیار کو منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کیا جائے۔
بلدیاتی حکومت کے اختیارات سے متعلق اپیلوں پر سماعت ملتوی
اسی بینچ نے جمعرات کو صوبائی لا آفیسر کو جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کی درخواستوں پر تبصرہ کرنے کا وقت دیا۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے مدعا علیہان کی جانب سے پیرا وائز تبصرے داخل کرنے کے لیے مزید مہلت طلب کی اور کہا کہ آئندہ سماعت سے قبل درخواست گزاروں کے وکلا کو پیشگی نقول فراہم کردی جائے گی۔
بینچ نے موسم گرما کی تعطیلات کے بعد تاریخ طے کرنے کے لیے سماعت ملتوی کر دی۔
دونوں جماعتوں نے گزشتہ سال سندھ لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) ایکٹ 2021 کو چیلنج کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست کی تھی اور سندھ میں مقامی حکومت کو بااختیار بنانے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کا بھی مطالبہ کیا تھا۔