’بچے کی نگہداشت مرد اور عورت دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے‘
حال ہی میں منظور ہونے والے ایک بل کے تحت ملازمت پیشہ خواتین کو پہلے بچے کی پیدائش پر 6 ماہ، دوسرے کی پیدائش پر 4 ماہ جبکہ تیسرے بچے کی پیدائش پر 3 ماہ کی چھٹیاں لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس قانون کے تحت والد کو بچے کی پیدائش پر اپنی مدت ملازمت کے دوران 3 دفعہ ایک ماہ کی چھٹیاں لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب پیٹرنل چھٹیوں (بجے کی پیدائش کے بعد والد کو ملنے والی چھٹیاں) کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے اور یہ قدم دو اہم وجوہات کی بنا پر کافی اہمیت کا حامل ہے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ اس قانون کا مقصد افرادی قوت میں خواتین کی موجودگی کو برقرار رکھنا ہے جبکہ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے تحت اس خیال کو بھی فروغ دیا گیا ہے کہ بچے کی دیکھ بھال مرد اور عورت دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جن ممالک میں خاندانی وجوہات کی بنا پر چھٹیاں دینے کی پالیسیاں ہیں وہاں لیبر فورس میں خواتین کی شرکت کی شرح بھی زیادہ ہے جبکہ اس سے صنفی مساوات کو بھی فروغ ملتا ہے اور پیداواری صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
خواتین کی حمایت میں قانون سازی کو فروغ دینے کی کوششوں اور اپنی ترقی پسند پالیسیوں کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے اقدامات قابلِ ستائش ہیں۔
ملازمت پیشہ خواتین کو بچے کی پیدائش پر چھٹیاں دینا بنیادی انسانی اور لیبر حقوق کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ زچہ اور بچے کی صحت، حفاظت، دیکھ بھال اور ان کی مالی ضروریات کی تکمیل کے لیے یہ قانون انتہائی اہم ہے۔
بچے کی پیدائش پر ملنے والی چھٹیاں خواتین کے بامعاوضہ کام کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں لیکن بچے کی دیکھ بھال میں لگنے والا وقت اکثر ان کے کام یا کریئر کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ گھریلو نگہداشت کے کاموں میں کھانا پکانا، صفائی، کپڑے دھونا جبکہ بچوں، بڑی عمر اور معذور افراد کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی شامل ہوتی ہے۔
یہ گھریلو ذمہ داریاں نہ صرف سماجی کام ہیں بلکہ اگر اسے ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اگر کچھ لوگ گھریلو معاملات میں وقت نہیں لگائیں گے تو بامعاوضہ کام کرنے والے بھی موثر طریقے سے انجام نہیں دے پائیں گے۔ تاہم دنیا بھر میں گھریلو کاموں کی ذمہ داری عموماً خواتین کے کاندھوں پر ہی ڈالی جاتی ہے جو بلامعاوضہ 75 فیصد گھریلو کام کرتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں 9 گنا زیادہ گھریلو کام بلامعاوضہ ادا کرتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام ( یو این ڈی پی) کے مطابق پاکستان میں خواتین ایک دن میں اوسطاً 4.4 گھنٹے بلامعاوضہ گھریلو کام کرتی ہیں، جن میں کھانا پکانا، صفائی ستھرائی، بچوں اور گھر میں بڑی عمر کے افراد کی نگہداشت کی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ تصور کریں کہ خواتین کو 9 سے 5 بجے کی نوکری کرکے 4.4 گھنٹے کا کام گھر میں بھی کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں روایتی طور پر بچے سنبھالنا خالصتاً عورت کی ذمہ داری تصور کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ عورتوں کو بامعاوضہ ملازمت سے وابستگی کے باوجود بھی گھریلو معاملات سنبھالنے کی ذمہ داری اٹھانا پڑتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو خواتین کے کاموں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے! گھریلو کاموں کی نوعیت خواتین کو تھکا دیتی ہے جس کے بعد ان کے پاس اپنے لیے انتہائی کم وقت رہ جاتا ہے۔ اس کے منفی اثرات ان کی صحت پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
سینیٹ میں منظور ہونے والا حالیہ بل ایک درست قدم ہے۔ اس بات کا احساس کرنا ضروری ہے کہ سماجی روایات کی تشکیل میں قوانین اور پالیسیوں کا کلیدی کرادر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پیٹرنٹی چھٹیوں سے اس خیال کو فروغ ملتا ہے کہ بچے کی دیکھ بھال مرد اور عورت دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگلے قدم کے طور پر ایسی اجتماعی سوچ کی ضرورت ہے کہ بچے کی نگہداشت کو اجتماعی ذمہ داری کے طور پر کیسے فروغ دیا جائے۔ گھریلو کاموں کی غیرمساوی تقسیم کے تشویشناک اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ مرد یہ چھٹیاں اپنے آرام کے لیے استعمال کریں گے۔ اس حوالے سے قلیل مدت میں والدین کے لیے کم از کم شرائط شامل کرنے کی ضرورت ہوگی جیسے والد کا اپنے بچے کی پیدائش کو لازمی طور پر رجسٹر کروانا۔
اسی طرح قانون سازوں کو ایسے قوانین پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے جو حاملہ خواتین سے امتیازی سلوک کو ختم کریں۔ اس حوالے سے ممکنہ قدم یہ اٹھایا جاسکتا ہے کہ زچگی کی چھٹیوں میں ہونے والے اخراجات کا انفرادی طور پر آجر ذمہ دار نہ ہو بلکہ یہ اخراجات سماجی بیمہ، عوامی فنڈز یا خواتین کے لیے سماجی امداد کے ذریعے فراہم کیے جائیں۔ آجر کے خواتین ملازمین کے ساتھ امتیازی سلوک کے خطرے سے نمٹنا انتہائی ضروری ہے۔ مزید یہ کہ قانون سازوں کو میٹرنل اور پیٹرنل چھٹیوں کے دائرہ کار کو بڑھاتے ہوئے ان میں کانٹریکٹ اور غیر رسمی ملازمین کو بھی شامل کرنا چاہیے۔
بچے کی نگہداشت کے علاوہ، ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کیسے حکومت اور مارکیٹس کے تعاون سے گھریلو کاموں کی ذمہ داریوں کو تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ترقی پسند پالیسیاں بنانے کے علاوہ ریاست کو اہم انفراسٹکچر اور خدمات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جن میں سفر کے وقت کو کم کرنے کے لیے سڑکوں کی تعمیر، اسکولوں، اسپتالوں، بچوں اور زائد عمر کے لوگوں کی دیکھ بھال کے لیے مراکز اور کمیونٹی سینٹرز کا قیام شامل ہیں۔
اس حوالے سے آجر بھی کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ میٹرنٹی اور پیٹرنٹی چھٹیوں کے بل کے ساتھ ساتھ ملازمت کے مقامات میں بچوں کی دیکھ بھال کی لازمی سہولیات فراہم کرنے کا بل بھی پاس ہوا ہے جوکہ انتہائی اہم اقدام ہے۔ خواتین جب چھٹیوں کے بعد نوکری پر واپس آئیں تو آجروں کو انہیں بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔ خواتین کو بچوں دودھ پلانے کے لیے وقفہ دیا جانا چاہیے اور انہیں کام پر واپس آنے کے لیے مناسب وقت بھی دیا جانا چاہیے۔
آجر کو کام کے اوقات میں کمی اور فی گھنٹہ آمدنی کے حساب سے جزوقتی مواقع، اور بچوں اور دیگر گھروالوں کی نگہداشت کے لیے چھٹیاں فراہم کرکے، کام کے لیے دوستانہ ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔ ملازمین کے حوصلہ افزائی، ٹرن اوور کم کرنے اور بھرتی کے ضابطوں کو بہتر بنانے کے حوالے سے شقوں کو قوانین میں شامل کرکے آجر کو بھی فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔ کام اور گھریلو زندگی میں توازن کے ذریعے کمپنیاں مثبت اور جامع ماحول پیدا کرسکتی ہیں۔
آج کل معاشی بحران کی صورتحال میں گھریلو اخراجات اٹھانے کے لیے دونوں افراد کو کفالت کرنی پڑتی ہے۔ ایسے میں مردوں کو آگے بڑھنا چاہیے اور بچوں کی نگہداشت اور گھریلو کاموں میں خواتین کی مدد کرنی چاہیے۔ پیٹرنٹی چھٹیوں کا قانون یہ تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
نجی شعبے میں اکثر اس طرح کے فیصلوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ حکومتوں اور آجروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی ان قوانین پر عمل کروائے۔ خواتین کے متعلقہ گروپس کی آواز اور گھریلو کام کرنے والوں کی رائے کو پالیسی سازی اور سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کے عمل میں شامل کرنا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ ان لوگوں کے خدشات کو سنا گیا ہے۔ درست پالیسیوں اور درست جگہ سرمایہ کاری کرکے ہم کچھ گھریلو ذمہ داریوں کو کم کرسکتے ہیں اور انہیں معاشرے میں مساوی طور پر تقسیم کرسکتے ہیں۔
یہ مضمون 7 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری ڈولپمنٹ پریکٹیشنر ہیں اور ماحولیاتی انصاف پر کام کر رہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔