پاکستان

کراچی: جیو نیوز کے ایگزیکٹو پروڈیوسر زبیر انجم کو ’اٹھالیا‘ گیا

زبیر انجم کے بھائی نے بتایا کہ سادہ لباس اہلکار صحافی کا موبائل فون اور پڑوس میں لگے کیمروں کی ڈی وی آر بھی ساتھ لے گئے۔
|

نجی چینل ’جیو نیوز‘ سے وابستہ ایگزیکٹو پروڈیوسر زبیر انجم کو ساہ لباس میں ملبوس افراد مبینہ طور پر ان کی رہائش گاہ سے ’اٹھا کر لے‘ گئے۔

جیو نیوز کی رپورٹ میں اہلِ خانہ کے حوالے سے کہا گیا کہ سادہ لباس افراد کے ہمراہ پولیس اہلکار بھی موجود تھے لیکن پولیس نے ان کی گرفتاری سے انکار کیا ہے۔

اہلِ خانہ نے مزید بتایا کہ 2 پولیس موبائل اور ایک ڈبل کیبن گاڑی ماڈل کالونی میں صحافی کی رہائش گاہ پر آئیں جن میں سے اہلکار ان کے گھر میں داخل ہوکر زبیر انجم کو لے گئے اور اہلِ خانہ نے ہراساں کرنے کا بھی الزام لگایا۔

صحافی کے بھائی سعادت علی نے ڈان کو بتایا کہ منگل کی رات تقریباً ایک بجے کچھ سادہ لباس اور کچھ پولیس کی وردی پہنے ہوئے اہلکار ان کے گھر میں داخل ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ اہلکاروں میں سے کچھ بندوقیں اٹھائے اور ماسک بھی پہنے ہوئے تھے، وہ ’جلدی‘ میں تھے اور زبردستی ان کے بھائی کو لے گئے۔

سعادت علی کا مزید کہنا تھا کہ اہلکار زبیر انجم کا موبائل فون اور پڑوس میں لگے کیمروں کی ڈی وی آر بھی ساتھ لے گئے۔

کورنگی کے ایس ایس پی طارق نواز نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس کو صحافی کی گرفتاری کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے، انہوں نے واضح کیا کہ ضلع کورنگی پولیس نے انہیں گرفتار نہیں کیا۔

ایس ایس پی طارق نواز کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں‘۔

اظہارِ مذمت

متعدد مقامی اور بین الاقوامی میڈیا تنظیموں نے صحافی کی جبری گمشدگی کی مذمت کی اور وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیر خارجہ، وزیر اعلیٰ سندھ اور آئی جی پی سندھ سے اس کا فوری نوٹس لینے اور زبیر انجم کو فوری رہا کرنے کی اپیل کی۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ اور اس سے منسلک تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے صحافی کی گمشدگی کی مذمت کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت سے فوری تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔

کراچی پریس کلب کے ایک بیان میں کہا گیا کہ زبیر انجم ان کے رکن ہیں اور ان کے ’گن پوائنٹ پر اغوا‘ اور انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔

کے پی سی نے اس اقدام کو میڈیا کی آزادی کو یرغمال بنانے اور اظہار رائے کی آزادی پر پابندیاں عائد کرنے کے مترادف قرار دیا۔

پریس کلب نے پیر کی رات دیر گئے پروڈیوسر کے گھر میں زبردستی گھس کر انہیں بندوق کی نوک پر اغوا اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کو ’ریاستی دہشت گردی‘ قرار دیا۔

کراچی یونین آف جرنلسٹس کے بھی مختلف دھڑوں نے اپنے اپنے بیانات میں الزام لگایا کہ دو پولیس موبائل اور ایک ڈبل کیبن وین پیر کی رات گئے زبیر انجم کے گھر پہنچی اور اہلکار انہیں بغیر کسی وارنٹ کے لے گئے اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔

کے یو جے کے سیکریٹری جنرل نے ایک ٹوئٹ میں ’جیو نیوز کے صحافی کے اغوا‘ پر دوپہر ساڑھے 3 بجے احتجاجی مظاہرہ کرنے کا بھی اعلان کیا۔

سندھ کمشین فار پروٹیکشن آف جرنلسٹس اور دیگر میڈیا اداروں نے کہا کہ زبیر انجم کسی بھی فوجداری مقدمے میں مطلوب نہیں تھے، لہٰذا یہ واضح طور پر ’اغوا‘ کا کیس ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی زندگی اور آزادی کا تحفظ کرے۔

کمیشن نے سندھ حکومت اور پولیس سربراہ سے مطالبہ کیا کہ زبیر انجم کی بازیابی کے لیے فوری اقدام کیے جائیں اور 36 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کی جائے۔

خیال رہے کہ کراچی سے چند روز قبل معروف وکیل اور سماجی کارکن جبران ناصر کو بھی گھر واپس جاتے ہوئے راستے سے اٹھا لیا گیا تھا۔

ان کی گمشدگی کی صحافیوں، سول سوسائٹی کے اراکین کی جانب سے بھرپور مذمت کی گئی تھی، حراست میں لیے جانے کے ایک روز بعد جبران گھر واپس آگئے تھے۔

قبل ازیں سینئر صحافی سمیع ابراہیم کو اسلام آباد میں نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے جو چھ روز بعد 30 مئی کو گھر واپس آگئے تھے۔

دریں اثنا اینکر پرسن عمران ریاض خان، جنہیں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کے بعد نفرت انگیز تقریر کے الزام میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 11 مئی کو سیالکوٹ کے ہوائی اڈے سے گرفتار کیا تھا اور پھر ’نامعلوم افراد‘ نے اٹھا لیا تھا، ابھی تک غائب ہیں۔

کوئٹہ میں مسلح افراد کی فائرنگ، سپریم کورٹ کے سینئر وکیل عبدالرزاق شر جاں بحق

عمران ریاض کیس: والد کو پولیس ورکنگ کمیٹی میں تحفظات بیان کرنے کی ہدایت

سفری ویزا کی چھوٹ کیلئے عراق، پاکستان کے مابین مفاہمتی یادداشت پر دستخط