پاکستان

عدالتی آبزرویشنز پر درخواستیں واپس لینے کے بعد سپریم کورٹ نے کے-الیکٹرک نجکاری کیس نمٹادیا

آرٹیکل 184 (3) کے تحت دی گئی یہ درخواست حکومت کی معاشی پالیسی کے خلاف ہے، یہ معاملہ کورٹ میں لانے کے بجائے پارلیمنٹ میں اٹھائیں، عدالت عظمیٰ
|

سپریم کورٹ میں کے-الیکٹرک نجکاری کیس میں عدالتی آبزرویشنز کے بعد درخواست گزار جماعت اسلامی سمیت تمام درخواست گزاروں نے اپنی درخواستیں واپس لے لیں جس پر عدالت نے کیس نمٹا دیا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل بینچ نے کے-الیکٹرک کی 2005 کی نجکاری کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 184 (3) کے کیسز میں ماضی میں بہت ساری چیزیں ہوئیں، پاکستان اسٹیل مل کا کیس بھی آرٹیکل 184 (3) کے تحت سنا گیا، عدالت کے الیکٹرک کی نجکاری کے خلاف یہ مقدمہ کیوں ٹیک اَپ کرے؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ جماعت اسلامی ہمارے لیے قابل احترام ہے اور پارلیمنٹ میں بھی موجود ہے لہٰذا وہاں نجکاری کا معاملہ اٹھائے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت دی گئی یہ درخواست حکومت کی معاشی پالیسی کے خلاف ہے۔

جماعت اسلامی کے وکیل رشید اے رضوی نے کہا کہ پارلیمنٹ ناکام ہوجائے تو پھر عدلیہ کا آپشن باقی رہ جاتا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایسا نہ کہیں کہ پارلیمنٹ ناکام ہوگئی، جب پارلیمنٹ کا احترام نہیں ہوگا تو کیا پارلیمنٹ ناکام نہیں ہوگی؟

انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کا احترام کریں، یہ معاملہ کورٹ میں لانے کے بجائے پارلیمنٹ میں اٹھائیں، ایسے اقدامات سے ہی پارلیمنٹ مضبوط ہوگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کی نجکاری کے معاہدے کو 184 (3) میں نہیں سن سکتے، ان مقدمات کو متعلقہ فورمز پر جانا چاہیے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ عدالت نجکاری کو کیسے منسوخ کرے، ٹیرف کا تعین کرنا نیپرا کا کام ہے، ہم کیسے کے الیکٹرک کی نجکاری کو منسوخ کردیں۔

وکیل رشید رضوی نے کہا کہ نجکاری کے معاہدے پر عمل نہیں کیا گیا۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے، ایسے معاملات نیپرا کے پاس جائیں گے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ موجودہ کیس میں دو ججز نے قانونی نکات کو اٹھایا ہے، کتنی سرمایہ کاری آئی کیا نتائج نکلے ہم اس کو نہیں دیکھیں گے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ یہ تجربے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں، چیزوں کو منسوخ کرنا آسان جبکہ اکٹھا کرنا اور بنانا مشکل ہوتا ہے، عوامی مسائل حل نہ ہونے کی ہی وجہ سے نجکاری کا عمل کیا گیا، اس مرحلے پر تفصیل میں جانا مشکل ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اگر سپریم کورٹ نے اقتصادی معاملات سے دور رہنے کا لکھ دیا تو دوسرے فورمز بھی یہ کہیں گے، بہتر ہے اس درخواست کو واپس لے کر متعقلہ فورم پر جائیں۔

انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے سیاسی ہم آہنگی کے کردار کو سراہتے ہیں، لیکن موجودہ کیس میں ہم نہیں جانا چاہتے۔

عدالتی آبزرویشنز کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل رشید رضوی سمیت تمام درخواست گزاروں نے درخواستیں واپس لے لیں جس پر عدالت نے درخواستوں کو نمٹا دیا۔

قبل ازیں گزشتہ روز ہوئی سماعت میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے جماعت اسلامی کی طرف سے کے-الیکٹرک کی 2005 کی نجکاری کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ سپریم کورٹ ملک کی معاشی پالیسیوں میں مداخلت نہیں کرے گی کیونکہ عدالت مالی معاملات پر مہارت نہیں رکھتی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جماعت اسلامی کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل رشید اے رضوی اور صلاح الدین احمد سے کہا تھا کہ اگر وہ چاہیں تو متعلقہ ہائی کورٹ سے رجوع کرلیں۔

عدالت نے وکیل سے کہا کہ وہ نئی ہدایات حاصل کریں اور مزید کارروائی منگل تک ملتوی کر دی تھی، کیونکہ بینچ اگلے ہفتے دستیاب نہیں ہوگا۔

بعد ازاں صلاح الدین احمد نے ڈان کو بتایا تھا کہ درخواست گزار نے عدالت سے یہ حکم دینے کی درخواست کی گئی تھی کہ یا تو کراچی کی الیکٹرک کمپنی کی نجکاری کو واپس لیا جائے یا کم از کم ادارے کے خریداروں کو اس وعدے کو پورا کرنے پر مجبور کیا جائے جو انہوں نے بجلی کمپنی کی خریداری کے وقت کیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ کے الیکٹرک کی نجکاری مبینہ طور پر غلط طریقے سے کی گئی کیونکہ اسے بھاری رعایت پر فروخت کیا گیا تھا اور بولی کے عمل میں طریقہ کار کی متعدد بے ضابطگیاں تھیں۔

اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ درخواست میں دلیل دی گئی کہ خریداروں کی جانب سے ادارے کا اختیار حاصل کرنے کے بعد کیے گئے وعدے بھی پورے نہیں ہوئے۔

دعوے کو ثابت کرنے کے لیے درخواست گزار نے کہا تھا کہ خریداروں کو پاور یوٹیلیٹی کے بنیادی ڈھانچے میں 36 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کرنی تھی لیکن انہوں نے مطلوبہ سرمایہ کاری نہیں کی۔

ایئرپورٹ سیکیورٹی فورسز ’مسافروں کو ہراساں‘ کرتی ہیں، سربراہ سول ایوی ایشن کا الزام

زیر سماعت کیس کے ٹکرز نہ نشر کیے جائیں، جسٹس محسن اختر کیانی کا میڈیا کو انتباہ

وفاقی حکومت کے قرضے 34.1 فیصد بڑھ کر586 کھرب روپے ہو گئے