پاکستان

آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواست سمیت اہم مقدمات سماعت کے لیے مقرر

پنجاب الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کےخلاف درخواست بھی سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کی گئی ہے۔
|

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواست سمیت اہم مقدمات سماعت کے لیے مقرر کردیے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ منگل کے روز آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواست پر سماعت کرے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کئی ایسی آڈیوز سامنے آئی ہیں جنہیں عدلیہ یا ججز سے منسوب کیا گیا تھا۔

21 مئی کو وفاقی حکومت نے ججز کی آڈیو لیکس کے معاملے پر تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا تھا جس کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں، چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کمیشن کے ارکان میں شامل ہیں۔

25 مئی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی تشکیل کے خلاف دائر درخواست 26 مئی کو سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔

26 مئی کو سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کا نوٹی فکیشن معطل کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے تھے جب کہ30 مئی کو وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کے خلاف درخواست پر سماعت کرنے والے بینچ پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے نیا بینچ تشکیل کرنے کی درخواست دائر کردی تھی۔

پنجاب الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظر ثانی اپیل

سپریم کورٹ نے پنجاب الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظر ثانی اپیل بھی سماعت کے لیے مقرر کردی ہے جس کی چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ بدھ کے روز سماعت کرے گا۔

واضح رہے کہ 23 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو شیڈول پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کو ملتوی کردیا تھا۔

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے ردعمل میں 23 مارچ کو پی ٹی آئی نے پنجاب میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں 25 مارچ کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔

جس پر 4 اپریل کو سماعت کرتے ہوئے عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن 90 دن سے آگے نہیں جاسکتا، الیکشن کمیشن کے غیر قانونی فیصلے سے 13 دن ضائع ہوئے، آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا، الیکشن کمیشن نے انتخابات کی 8 اکتوبر کی تاریخ دے کر دائرہ اختیار سے تجاوز کیا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ملک بھر میں تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرانے کے معاملے پر حکومتی اتحاد اور اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کو آپس میں مذاکرات کرنے کی بھی ہدایت کی تھی، تاہم وہ مذاکرات کسی حتمی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئے تھے۔

29 مئی کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے، خفیہ ملاقاتوں سے معاملات نہیں چل سکتے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواست

اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواست بھی سماعت کے لیے مقرر کردی جس کی سماعت جمعرات کے روز ہوگی۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کے خلاف دائر درخواستوں پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف دائر درخواستوں میں پارلیمنٹ سے منظور ترامیمی ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

عدالت عظمیٰ میں ایکٹ منظوری کے خلاف 4 درخواستیں دائر کی گئیں ہیں، 2 درخواستیں وکلا اور 2 درخواستیں شہریوں کی جانب سے دائر کی گئیں۔

درخواست گزاروں نے مؤقف اپنایا ہے کہ پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کا کوئی آئینی اختیار نہیں، سپریم کورٹ کے رولز 1980 میں بنے تھے، آرٹیکل 183/3 کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا گیا تو ایکٹ کے تحت بھی حق نہیں دیا جاسکتا۔

خیال رہے کہ عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزر جانے پر از خود منظور ہوکر 21 اپریل کو قانون کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

28 مارچ کو وفاقی کابینہ کی جانب سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی منظوری دی گئی تھی، جس کے بعد 29 مارچ کو قومی اسمبلی سے اسے متعدد ترامیم کے بعد منظور کرلیا گیا تھا۔

قومی اسمبلی میں 29 مارچ کو مذکورہ بل وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا تھا جسے بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا تھا۔

بعد ازاں 30 مارچ کو سینیٹ سے بھی یہ بل اکثریت رائے سے منظور ہوگیا تھا، منظوری کے بعد 30 مارچ کو باقاعدہ توثیق کے لیے صدر مملکت کو ارسال کردیا گیا تھا، تاہم صدر مملکت نے 8 اپریل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے والا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اختیارات سے باہر قرار دیتے ہوئے نظرثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا تھا۔

صدر مملکت کی جانب سے مذکورہ بل واپس بھیجے جانے کے بعد 10 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اسے دوبارہ منظور کرلیا گیا تھا۔

13 اپریل کو عدالت عظمیٰ نے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘ پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک دیا تھا، سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ کی صدر مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد یا دوسری صورت میں اس کے ایکٹ بننے کی صورت میں یہ مؤثر نہیں ہوگا، نہ ہی کسی بھی طرح سے اس پر عمل کیا جائے گا۔

بعد ازاں 21 اپریل کو صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر یہ بل از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا تھا اور بل منظوری کے تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے باقاعدہ نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا تھا۔

2 مئی کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مذکورہ بل پر سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے اور جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے علیحدہ کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا تھا۔

6 مئی کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا تھا۔

پاناما پیپرز

ایک اور اہم کیس بھی آئندہ ہفتے سماعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے، پاناما پیپرز کے انکشافات سے پاکستان کی سیاست میں ہلچل کے تقریباً 8 برس بعد یہ معاملہ ایک بار پھر شہہ سرخیوں میں ہے۔

سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی کی ایک درخواست پر سماعت جمعہ کے روز ہوگی جس میں اُن 436 افراد کے خلاف ہدایت جاری کرنے کی استدعا کی گئی ہے جنہوں نے مبینہ طور پر آف شور کمپنیوں میں دولت چھپائی۔

درخواست پر جسٹس سردار طارق مسعود کی زیر سربراہی 2 رکنی بینچ سماعت کرے گا جس میں جسٹس امین الدین خان بھی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ پاناما لیکس کیس کا حتمی فیصلہ جاری ہونا تاحال باقی ہے، 3 نومبر 2017 کو جماعت اسلامی نے ایک درخواست کے ذریعے عدالت کو امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی جانب سے اگست 2016 میں دائر کی گئی زیر التوا درخواست کی یاد دہانی کروائی تھی۔

تاہم جسٹس آصف سعید کھوسہ کی زیر سربراہی 5 رکنی بینچ، جو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے کی درخواستوں کی سماعت کر رہا تھا، نے اس کیس کو وسیع البنیاد ہونے کے سبب علیحدہ کر دیا تھا، تاہم عدالت نے جماعت اسلامی کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اس درخواست پر کسی مناسب وقت پر سماعت کی جائے گی۔

سپریم کورٹ رولز 1980 کے آرڈر 33 رول 6 کے تحت سراج الحق کی جانب سے ایڈووکیٹ محمد اشتیاق احمد راجا کے ذریعے دائر درخواست میں درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ عوام کی دولت کے تحفظ کے لیے وسیع تر قومی مفاد میں عدالت کی توجہ طلب کی جا رہی ہے، کیس کی سماعت میں تاخیر سے آف شور کمپنیوں کے مالکان کو اپنی آمدنی اور دولت کے ذرائع چھپانے میں مزید مدد ملے گی۔

سراج الحق نے اپنی اصل درخواست میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ پانچوں جواب دہندگان (وفاقی حکومت، سیکرٹری قانون و انصاف، سیکریٹری خزانہ، کابینہ ڈویژن اور نیب) کے ذریعے ان تمام مجرموں کو گرفتار کرنے کا حکم دے جنہوں نے چوری کا پیسہ آف شور کمپنیوں میں لگایا اور ان کمپنیوں میں غیر قانونی طور پر منتقل کیا جانے والا عوام کا پیسہ واپس ملک میں لایا جائے۔

جماعت اسلامی نے مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دے رہا ہے لیکن سرکاری افسران، قانونی اداروں کے عہدیداران اور شہری بھی غیر قانونی اور کرپٹ ذرائع سے آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے میں مصروف ہیں، اس طرح ریاست کے علم میں لائے بغیر بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ کی گئی یا غیر قانونی طور پر کچھ آف شور کمپنیوں میں یہ رقم منتقل کی گئی، جس سے قوم اور قومی خزانے کو بھاری مالی نقصان پہنچا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ آف شور کمپنیوں میں یہ سرمایہ کاری درحقیقت بدعنوانی اور غیر قانونی طریقوں سے عوام کا پیسہ لوٹ کر ہوئی ہے، سرکاری عہدیداران کی بڑی تعداد آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہے اور متعلقہ حکام کو جمع کرائے گئے اثاثوں کے گوشواروں میں حقائق چھپا رہی ہے۔

لہٰذا درخواست میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ایسے تمام سرکاری عہدوں کے حامل افراد کو ان کے عہدوں سے نااہل قرار دیا جانا چاہیے اور انہیں سزا ملنی چاہیے، تاہم، درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ حکومتی اداروں کی جانب سے غفلت اور غیر فعالیت کی وجہ سے احتساب کے عمل کو شفاف طریقے سے نہیں چلایا جا رہا، نیب کے تحت قائم موجودہ احتسابی نظام ہر سطح پر نافذ العمل نہیں نظر آتا۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے لیے قومی دولت کی غیرقانونی منتقلی کو قومی احتساب آرڈیننس کے سیکشن 9 کے تحت جرم قرار دیا جائے اور عدالت ان تمام افراد کے خلاف ملک کے متعلقہ قوانین کے تحت انکوائری کمیشن کے ذریعے مقدمہ چلانے کا حکم دے جنہوں نے بدعنوانی کے ذریعے یہ سرمایہ کاری کی۔

ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف 479 ارب روپے کی کرپشن کا کیس

سماعت کے لیے مقرر ایک اور اہم کیس سابق وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم پر 462 ارب روپے کی مبینہ کرپشن سے متعلق ہے جس کی سماعت جمعرات کے روز چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کرے گا۔

سابق وزیر پیٹرولیم اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف 479 ارب روپے کی کرپشن کا مقدمہ ہے، انہیں 26 اگست 2015 کو اُس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے ایک اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔

نیب نے کرپشن کے مختلف الزامات کے تحت ڈاکٹر عاصم حسین کو حراست میں لیا تھا اور احتساب عدالت میں ان کے خلاف اربوں روپے کی کرپشن کا ریفرنس دائر کیا تھا۔

ڈاکٹر عاصم حسین 2009 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سندھ سے سینیٹر منتخب ہوئے، انھوں نے 2012 تک وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل اور وزیراعظم کے مشیر برائے پیٹرولیم کے فرائض انجام دیئے۔

2012 میں وہ سینیٹ سے اُس وقت مستعفی ہو گئے تھے جب سپریم کورٹ نے دہری شہریت پر اراکین پارلیمنٹ کو نااہل قرار دیا تھا، ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کینیڈا کی بھی شہریت تھی۔

پیپلز پارٹی نے 2013 کے عام انتخابات کے بعد انھیں سندھ کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔

54 ارب روپے کے قرضوں کی معافی کےخلاف از خود نوٹس بھی سماعت کے لیے مقرر

سپریم کورٹ نے 54 ارب روپے کے قرضوں کی معافی کے خلاف از خود نوٹس بھی سماعت کے لیے مقرر کردیا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ 7 جون کو اس کیس کی سماعت کرے گا۔

یاد رہے کہ جسٹس (ر) جمشید کمیشن نے خلاف ضابطہ قرضے معاف کرانے والی 222 کمپنیوں کے خلاف مزید کارروائی کی سفارش کی تھی۔

کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 222 کمپنیوں نے 18 اعشاریہ 717 ارب کا قرضہ لیا اور قرضے کی رقم کا 8 اعشاریہ 949 ارب روپے واپس کیے۔

رپورٹ کے مطابق 222 کمپنیوں کی جانب اس وقت 11 اعشاریہ 769 ارب روپے کا قرض واجب الادا ہے، اس کے علاوہ ان کمپنیوں پر بینک سود کی مد میں 23 اعشاریہ 572 ارب روپے بھی واجب الادا ہیں۔

کمیشن کے مطابق مجموعی طور پر 620 قرضہ معافی کے مقدمات میں 84 ارب روپے معاف کیے گئے، 222 کمپنیوں کے 35 ارب روپے کے قرض سرکلر نمبر 2002/29 کے تحت معاف ہوئے۔

جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بدھ کے روز طلب

اس کے علاوہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بدھ کے روز طلب کیا گیا ہے، جس میں بلوچستان ہائی کورٹ کے 5 اور پشاور ہائی کورٹ کے 3 ایڈیشنل ججز کی مستقلی کا جائزہ لیا جائے گا۔

خیال رہے کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان ایک آئینی ادارہ ہے جو ججوں کی اعلیٰ عدالتوں میں ترقی کی تجاویز دیتا ہے، اس کا آخری اجلاس اکتوبر 2022 میں ہوا تھا جب ججوں کے ناموں کے انتخاب میں سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کرنے پر تعطل کے بعد 3 ججوں کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش کیے جائیں گے، آئی جی پنجاب

’بےچینی کے ماحول میں آپ کے گانے کا شدت سے انتطار ہے‘، کیا طاہر شاہ دوبارہ واپس آرہے ہیں؟

انگلینڈ نے واحد ٹیسٹ میچ میں آئرلینڈ کو بآسانی 10 وکٹوں سے شکست دے دی