پاکستان

سندھ کے ترقیاتی بجٹ کیلئے مختص اربوں روپے خرچ نہ ہوسکے

حکومت سندھ 26 مئی تک صرف 62 فیصد یا 214 ارب روپے خرچ کر سکی حالانکہ محکمہ خزانہ نے 346 ارب روپے جاری کیے تھے۔

وفاقی اور صوبائی سطح پر بجٹ کا اعلان نزدیک ہے لیکن ترقیاتی اسکیموں کے لیے مختص اربوں روپے کی رقم اس بار بھی عدم توجہی کا شکار ہے جو متعلقہ محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری کیے جانے کے باوجود ہر سال خرچ نہیں ہوتی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہی معاملہ سندھ کا ہے، پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے فنڈ ریلیز کی پوزیشن پر مشتمل سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری ہونے والے ہر 100 روپے میں سے 38 روپے مئی کے آخر تک، یعنی رواں مالی سال 23-2022 کے گیارہوں مہینے تک خرچ نہیں ہوئے۔

دوسرے الفاظ میں حکومت سندھ 26 مئی تک صرف 62 فیصد یا 214 ارب روپے خرچ کر سکی حالانکہ محکمہ خزانہ نے 346 ارب روپے جاری کیے تھے۔

سب سے بری بات یہ ہے کہ 23-2022 کے پہلے 11 ماہ میں 346 ارب روپے کے جاری کیے گئے کُل فنڈز 459 ارب روپے کی اصل مختص شدہ رقم کا صرف 75 فیصد بنتے ہیں۔

مختلف وزارتوں اور محکموں کی جانب سے جاری کردہ فنڈز کے اخراجات بھی ناہموار رہے، جن محکموں نے صوبائی ترقیاتی پروگرام کے تحت جاری کیے گئے فنڈز کے مقابلے میں اخراجات کا سب سے زیادہ فیصد حاصل کیا ان میں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن (100 فیصد)، تھر کول انفرااسٹرکچر (100 فیصد)، صوبائی اسمبلی (99 فیصد) اور انفارمیشن، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (98 فیصد) شامل ہیں۔

تاہم، تعلیم، صحت اور ماحولیات کے محکمے 11 ماہ کی مدت میں دستیاب فنڈز کے برعکس بالترتیب صرف 62 فیصد، 52 فیصد اور 31 فیصد خرچ کر سکے۔

حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب صدیقی نے کہا کہ غیر خرچ شدہ فنڈز کو آئندہ سال کے بجٹ میں منتقل کیا جاتا ہے، ترقیاتی اسکیموں کے لیے جاری کیے گئے فنڈز کا کم استعمال چند بڑی وجوہات کی وجہ سے ایک مستقل مسئلہ ہے۔

ترقیاتی اسکیموں کے خلاف مسلسل قانونی چارہ جوئی سے کام کی رفتار کافی حد تک سست ہو جاتی ہے، کراچی میں متعدد منصوبے حکم امتناع کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں، علاوہ ازیں پروجیکٹ کی منظوریوں اور اصل کام کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق سے پیدا ہونے والی لاگت میں اضافہ بجٹ میں خلل ڈالتا ہے اور مزید تاخیر کا باعث بنتا ہے۔

مرتضیٰ وہاب نے اس تاثر کی تردید کی کہ حکومت سندھ ساتویں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے بعد اپنے خزانے میں آسانی سے دستیاب رقم کو خرچ کرنے میں بھی سست ہوگئی ہے۔

این ایف سی ایوارڈ نے صوبوں کا حصہ 47.5 فیصد سے بڑھا کر 57.5 فیصد کردیا جبکہ وفاقی حکومت کا حصہ 10 فیصد کم کرکے 42.5 فیصد کردیا ہے۔

حکومت سندھ کی جانب سے 23-2022 کے بجٹ میں 16 کھرب 80 روپے کی کُل آمدن کا تقریباً دو تہائی حصہ وفاقی منتقلی کے تحت تھا، دریں اثنا وفاقی حکومت کے اکاؤنٹس ہر مالی سال کے پہلے دن سے خسارے میں ہیں، جس سے قرض کی فراہمی مرکز میں تمام حکومتوں کے لیے ایک مستقل چیلنج بن گئی ہے۔

تاہم مرتضیٰ وہاب نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سندھ کا ٹیکس موبلائزیشن، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے کہیں بہتر ہے، ہم اشیا پر سیلز ٹیکس بھی جمع کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ ہم کتنا ریونیو اکٹھا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر صوبوں میں ہونے والی کاروباری سرگرمیوں پر ٹیکس وصول کرتا ہے، ایف بی آر کی جانب سے واپس کی گئی رقم صوبے کے عوام کا حق ہے۔

حکومت کا آرٹیکل 63-اے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کےخلاف نظرثانی درخواست دائر کرنے پر غور

ایک ٹکٹ پر تین فلموں کے مزے، ’تیری میری کہانیاں‘ کا ٹریلر جاری

وزیراعظم شہباز شریف کی ترک کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت