بھارت ہمارے پڑوس میں آلودگی پھیلانے والا ایک بڑا ملک ہے، شیری رحمٰن
وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ بھارت ہمارے پڑوس میں آلودگی پھیلانے والا ایک بڑا ملک ہے لیکن پاکستان ماحولیاتی آلودگی کے خلاف تمام اہداف حاصل کرلے گا۔
لیڈرز ان اسلام آباد بزنس کانفرنس کے چھٹے ایڈیشن کے اختتامی سیشن میں وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن اور دیگر سیاسی شخصیات سمیت 50 سے زائد ملکی اور غیرملکی ماہرین نے شرکت کی۔
وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بہت کچھ کر رہے ہیں، رواں ماہ فرانس میں ہونے والی کانفرنس اسی لیے ہو رہی ہے اور عالمی مالیاتی ادارے اس لیے بنائے گئے کہ ترقی پذیر ملکوں کی معاونت کریں۔
انہوں نے کہا کہ فرانس میں ہونے والی کانفرنس عالمی مالیاتی نظام کی تنظیم نو کرے گی، جس میں ماحولیاتی فنانس بھی شامل ہے، پاکستان نے کوپ-27 میں ایک موقع حاصل کیا اور ایک گروپ کو متحدہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ماحولیاتی آلودگی سے متعلق اہداف حاصل کر لے گا، موجودہ مالیاتی نظام ماحولیاتی فنانس اہداف کے لیے موضوع نہیں ہے اور یہ کام نہیں کرسکے گا کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی کے لیے ہزاروں ارب ڈالرز کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ بھارت ہمارے پڑوس میں آلودگی پھیلانے والا ایک بڑا ملک ہے، پلاسٹک عالمی سطح پر ختم کیا جارہا ہے لیکن ہمارے یہاں پلاسٹک کا بہت زیادہ استعمال ہے۔
آلودگی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سالانہ دو کے ٹو کے مساوی پلاسٹک کا کچرا پیدا کرتا ہے، حکومتیں آلودگی نہیں پھیلا رہی ہیں بلکہ بڑی صنعتیں اور کمپنیاں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے کا باعث ہیں، ان صنعتوں کو معاونت کی جائے جو اپنا کاروبار گرین انرجی پر منتقل کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کا فضائی آلودگی میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر یہاں ہم 45 ڈگری کا درجہ حرارت برداشت کر رہے ہیں۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ پاکستان کو شدید ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے، جس سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے، پالیسی فریم ورک تیار اور قومی سطح پر ایک منصوبہ بنا کر اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ بڑے ڈیمز کا دور ختم ہوگیا ہے، پاکستان کو پانی کے ذخائر کی ضرورت ہے۔
پاکستان پر پڑنے والی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم درجہ حرارت میں 2ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کی طرف جا رہے ہیں، جس سے گلیشیر پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوگیا ہے، گلیشیئر پگھلتے ہیں تو وہ پلوں اور جو کچھ ان کے راستے میں آتا ہے سب بہا کر لے جاتے ہیں، سیاچن گلیشیئرز بھی بہت تیزی سے پگھل رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پانی کی کمی فی الحال نہیں ہو گی، ضرورت اس بات کی ہے کہ پانی کا استعمال کنٹرول کیا جائے، قحط سالی اور سیلاب ماحولیاتی تبدیلی کی بہترین مثال ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے پاکستان کو شدید نقصان پہنچا ہے لیکن ہمارا طرز زندگی تبدیلی نہیں آرہی، پاکستان میں اب بھی لوگ گھروں میں گاڑیاں دھونے میں ہزاروں گیلن پانی ضائع کر دیتے ہیں، پاکستان فی کس پانی کی کھپت کی قلت کے حساب سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔
سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل(ر) زبیر محمود حیات نے کہا کہ بیانیہ تبدیلی کرنا مشکل کام ہے، بیانیہ ارتقائی اور انقلابی ہوسکتا ہے، جس کے ذریعے معاشرے اور قوم دونوں کا ارتقا ہوتا ہے، انقلابی بیانیہ قلیل مدتی جبکہ ارتقائی بیانیہ طویل مدتی ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاست کا بیانیہ ایک نئی چیز ہے، بیانیے میں نفرت کی علامت ہٹلر تھا، جبکہ انسانیت کی علامت عبدالستار ایدھی، ایک بیانیہ محبت کا ہے، بیانیہ کوئی بھی فرد ہائی جیک کرسکتا ہے اور مجھے جس کی فکر ہے وہ جعلی بیانیے کی ہے، اب بیانیے پر ٹیکنالوجی کے اثرات بھی پڑ رہے ہیں۔