برطانیہ کی آئینی بادشاہت اور ہمارے ’ساشے پیک‘ بادشاہ
لیجیے، چارلس صاحب کو برطانیہ کے بادشاہ ’لگے‘ ایک ماہ ہونے کو آگیا ہے۔ جی بالکل! ہمیں ’بادشاہ بنے‘ لکھنا چاہیے لیکن برطانوی بادشاہت کے اختیارات دیکھتے ہوئے بادشاہ یا ملکہ بننے اور بادشاہت سنبھالنے کے الفاظ مذاق لگتے ہیں، چونکہ چارلس صاحب کی بادشاہت نوکری لگنے جیسی ہے۔
بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں کہا جاتا ہے بھائی جمیل کا لمڈا ایس ایچ او لگ گیا، آپا شکیلہ کا لڑکا پٹواری لگ گیا، بَنّے میاں کا سالا محکمہ تعلیم میں لگ گیا، حالاں کہ یہ لگنے والے جتنے سیاہ سفید کے مالک ہوتے ہیں، اس سے آدھے بھی سیاہ سفید کی مالک برطانوی بادشاہت ہوجائے تو برطانیہ کی جمہوریت کا منہ لال پیلا ہوجائے گا۔ ایسے میں محترم چارلس کے تاج پہن لینے کو ’بادشاہ لگ گئے‘ کہنا ہی مناسب لگتا ہے۔
ہم کیا کریں کہ ہم نے بادشاہوں کے بارے میں جو کچھ پڑھا، فلموں میں دیکھا اور چند زندہ ’ملوک‘ کی بابت جو کچھ جانا ہے، اس کی بنا پر بھائی چارلس ہمیں کسی زاویے سے بادشاہ نہیں لگتے۔ بس دوران شہزادگی ان کے کچھ اطوار شاہانہ ناز نخروں کا پتا دیتے ہیں، جیسے اس وقت شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق موصوف کے، ’صبح اٹھتے ہی ایک خدمت گار منہ کی دھلائی اور چہرے سے روئیں کی مونڈائی میں ان کی مدد کرتا ہے، پہننے کے لیے لباس نکال کر پیش کردیتا ہے، یہاں تک کہ ان کے ٹوتھ بُرش پر پیسٹ لگانا بھی اس کی ذمہ داری تھی۔
ناشتے کا اہتمام بندھے ٹکے قاعدے کے مطابق یوں ہوتا ہے کہ ٹرے پر دائیں طرف پیالی اور طشتری رکھی ہوتی ہیں، جن کے ساتھ ایک طلائی چمچا ہمیشہ گھڑی کی سوئی کے 5 بجنے کے زاویے پر رکھا ہوتا ہے، مکھن 3 عدد گولیوں کی صورت میں اور خوب ٹھنڈا ہونا لازمی ہے، توس لازماً ایک طلائی ریک میں رکھے ہوتے ہیں، انہیں کبھی پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ مختلف جیمز، جیلیز، نارنگی کا مُربّہ اور شہد ایک الگ طلائی ٹرے میں لقمہ بننے کے منتظر ہوتے ہیں’۔
بس کُل ملا کر یہ اور ایسے کچھ نخرے اور جکڑے ہوئے معمولات ہی بادشاہی کی باقیات کے طور پر بچے ہیں۔ ان کے ناشتے میں انڈا نہ ہونے پر ہمیں حیرت ہوئی، ہمارے لیے تو صبح نام ہی ابھرتے سورج کے بجائے اس کے ہم شکل فرائی انڈے کا ہے، یہ جان کر کتنی خوشی ہوئی کہ ہم بلاناغہ انڈا کھاتے ہیں اور اُدھر ’بادشاہ کو بھی میسر نہیں انڈا ہونا‘۔
بادشاہ لگنا تو چھوڑیے ہماری عقل اس آئینی بادشاہت ہی کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ہمیں یہ ایسی ہی اصطلاح لگتی ہے جیسے ’نثری نظم‘، ’سود سے پاک بینکنگ‘ اور ہاں ’عوام دوست بجٹ‘۔
اس قسم کی کچھ باہم متضاد تراکیب اور اصطلاحات ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں، اگر آپ کو ان کے حقیقت ہونے پر یقین آنے کی جگہ ہنسی نہ آئے تو جو چور کی سزا وہ ہماری سزا۔ سچا سیاست دان، شاکرِ شوہر بیوی، فدائے اہلیہ شوہر، غیرجانب دار صحافی اور دیانت دار صنعت کار۔۔۔ کہیے، یقین آیا یا ہنسی آئی؟
بہ ہرحال جب برطانیہ کی شاہی کو سب آئینی بادشاہت کہتے ہیں تو ماننا ہی پڑتا ہے، یوں بھی ’مان‘ ہمارے نام کا اٹوٹ انگ ہے، اس لیے نام کے زیراثر ہم وہ دعوے بھی مان لیتے ہیں جنہیں تسلیم کرنا کسی ذی شعور کے لیے ممکن نہیں، جیسے جب ’کوئی‘ کہے کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، کسی کا یہ اصرار ہو کہ بچوں کی طرح اس کے فیصلے بھی غیر سیاسی ہوتے ہیں، ایک اداکارہ کا یہ بھول پن کہ ’لوگ ہمارا چہرہ ہی تو دیکھتے ہیں‘، نوازشریف کے پلیٹلیٹس کی کمی اور کسی کا پلاستر، ہمیں ان سب پر یقین کامل ہے۔
سو آئینی بادشاہت کے وجود سے کیسے انکار کرسکتے ہیں۔ خیر حیرت تو ہمیں یہ جان کر بھی ہوئی تھی کہ برطانیہ کا آئین غیر تحریری ہے۔ عرصے تک ہم یہ سمجھتے رہے کہ انگریز نرے ان پڑھ ہیں کہ اب تک ایک آئین نہ تحریر کرسکے۔ ہمیں دیکھو 75 سال میں تین آئین بنا ڈالے اور آخری دستور کو بھی ترامیم و اضافے کرکے کچھ کا کچھ بناتے رہے ہیں۔
جب ہم نے اپنے دوست بابو بھائی کو بتایا کہ برطانیہ کا آئین غیر تحریری ہے تو حیرت سے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کچھ دیر سکتے کی حالت میں رہنے کے بعد بولے ’ابے لے کِے سے جھائل ہیں آئین بھی نہ لکھ سکے، فِر وی دیکھو کِے سے پٹرپٹر انگریزی بولتے ہیں‘۔
بابوبھائی کا تو پتا نہیں لیکن ہماری سمجھ میں آخر یہ بات آگئی کہ انگریز جیسی روایت پسند اور قواعد وضوابط کی پابند قوم ہو تو غیرتحریری آئین کی بھی پاس داری کی جاسکتی ہے ورنہ ’بعض ممالک‘ میں تو تحریرشدہ دستور بھی جب چاہے گم شدہ کردیا جاتا ہے۔ یہ انگریزوں کی روایت پرستی ہی ہے کہ انہوں نے بادشاہت کو بزرگوں کی نشانی سمجھ کر سنبھال رکھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بادشاہی کے دانت نکال دیے اور ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں۔ شاہی خاندان بھی اپنی رعایا کے خیال سے خود کو بہت سنبھال سنبھال اور سینت سینت کر رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ملکہ الزبتھ دوم 92 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئیں اور ولی عہد چارلس کو اس عمر میں بادشاہی نصیب ہوئی جس عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی پرانے زمانوں کے کتنے ہی بادشاہ سلامت بے صبرے شہزادوں کے ہاتھوں سلامت نہیں رہے تھے۔ سنبھالنے کی یہ سہولت لیڈی ڈیانا سے ان کے خاندان بدر ہوتے ہی واپس لے لی گئی تھی، پھر یہ ہوا کہ وہ ایک پراسرار حادثے کا شکار ہوکر دنیا سے چلی گئیں۔
انگریز کس قدر قدامت پسند و روایت پرست ہیں، اس کا اندازہ نئے تاج ور کی تقریبِ تاج پوشی کی تام جھام سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس بار رسم تاج پوشی کے تزک واحتشام پر 250 ملین پاؤنڈز برطانوی حکومت نے اپنی جیب سے لُٹائے ورنہ پچھلی تقریبات کے لیے سونے کی چُڑیا ہندوستان سے لے کر معدنیات کی جنت افریقہ تک کے وسائل تاج برطانیہ کو میسر تھے۔
لیکن اب معاملہ اپنے خرچے پر خوش رہنے کا ہے، اور یہ خرچہ بھی ان حالات میں کیا گیا جب معیشت کی حالت دگرگوں ہے، مہنگائی 11 فی صد بڑھ چکی ہے جو گزشتہ 40 سال میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔ ملک بھر کے ڈاکٹروں، نرسوں، اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازمین سے مہینوں پہلے صاف صاف کہہ دیا گیا کہ حکومت کے کَنے پیسے نہیں، لہٰذا اُجرت بڑھنے کی کوئی امید نہ رکھیں، کرنا ہے تو اسی تنخواہ پر کام کرتے رہیں۔
پچھلے برس مفت خوراک فراہم کرنے والے ’خیراتی بینکوں‘ سے استفادہ کرنے والوں میں 7 لاکھ 50 ہزار نئے افلاس زدہ افراد کا اضافہ ہوگیا ہے اور ہنگامی بنیادوں پر بھیجے جانے خوراک کے پارسل 30 لاکھ ہوگئے تھے۔ ایسے میں جب روٹی کے لالے پڑے ہوں تو شاہی خاندان کے لعل کو تخت سنبھالتے اور دمکتے تاج کے لشکارے دکھانے کے لیے بھاری رقم خرچ کرنے پر ردعمل تو سامنے آنا تھا، جسے روکنے کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر پبلک آرڈر بل منظور کیا گیا۔ اس کا مقصد قرار پایا کہ یہ بل ’پولیس کو، برطانیہ اور ویلز میں اس موسم گرما میں منعقد ہونے والی کھیل اور ثقافت کی اہم سرگرمیوں میں خلل ڈالنے سے روکنے کے لیے طاقت فراہم کرے گا‘۔ پھر دنیا نے یہ منظر دیکھا کہ مادرِجمہوریت کہلائی جانے والی سرزمین پر بادشاہت کے خلاف مظاہرہ کرنے والی جمہور کو عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والی پولیس ہی دھڑا دھڑ گرفتار کر رہی ہے۔
ہمارے خیال میں برطانوی عوام کو تاج پوشی کی تقریب پر ہونے والے سرکاری اخراجات کا صدمہ برداشت کرلینا چاہیے، یہ سوچ کر کہ کچھ رسمی اختیارات اور عشروں بعد ہونے والی ایسی ایک آدھ تقریب ہی تو ہے جس کے سبب برطانیہ کا شاہی خاندان اپنا شاہانہ بھرم قائم رکھے ہوئے ہے، ورنہ آنجہانی ملکہ جانے کب کا ’اے ختم کرو یہ موا فینسی ڈریس شو‘ کہہ کر شاہی قواعد وضوابط میں جکڑی زندگی تج چکی ہوتیں اور اہل برطانیہ بھی ہماری طرح بادشاہوں سے محرومی کا دکھ جھیل رہے ہوتے۔
بھائی انگریز! دیکھو ہمیں جو دیدہِ عبرت نگاہ ہو۔ تمہارے پُرکھوں نے ہم سے بادشاہت چھین لی تھی اور ہمیں اب تک یہ محرومی کھائے جاتی ہے۔ اس محرومی کو دور کرنے کے لیے ہم نے ’ملکہ ترنم‘ اور ’شہنشاہ غزل‘ سے کام چلانے کی کوشش کی لیکن سواد نہ آیا۔ بھئی وہ کاہے کا بادشاہ جو اپنے سُر ہی اٹھاتا رہے دوسروں کے سَر نہ جھکائے۔ اگرچہ ہمارے ہاں پولیس کے سپاہی سے سرکاری دفاتر کے کلرکوں تک ’ساشے پیک‘ میں طرح طرح کے بادشاہ دستیاب ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں ملوکیت سے جاگیرداروں کی سلطنتوں تک شاہانہ مظاہر کی فراوانی ہے، ’مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی‘۔
ساحلی شہر سے تعلق رکھنے اور 120 گز کے مکان میں رہنے والے ایک سیاسی ’قائد‘ نے اپنی سال گرہ پر طلائی تاج پہننے اور سونے کی تلوار سے کیک کاٹ کر کوشش کی تھی کہ بادشاہوں کے لیے تڑپتے عوام کو شہنشاہی رنگ ڈھنگ کی ایک جھلک دکھا کر مطمئن کرسکیں، اب وہ خود ’ایک تھا بادشاہ‘ کی تفسیر ہوچکے ہیں۔ ہمارے دیگر سیاسی رہنما بھی اپنے محلات، رہن سہن اور اندازِسیاست کے ذریعے دراصل قوم کی اسی محرومی کا ازالہ کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
تو برطانیہ والو! ہمیں دیکھ کر سبق لو، اور جان لو کہ اگر ملک میں ایک بادشاہ نہ ہو تو نہ جانے کتنے بادشاہ مع ملکہ عالیہ اور شہزادے شہزادیاں گلے پڑ جاتے ہیں۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔