نقطہ نظر

ترکیہ انتخابات: ’ایک دشوار راستہ اردوان کا منتظر ہے‘

رجب طیب اردوان پاور بروکر کی حیثیت سے تبدیل ہوتی اس دنیا میں ترکیہ کے کردار کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

آخرکار ایک بار پھر رجب طیب اردوان کی جیت ہوئی۔ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر منعقد ہونے والے ترکیہ کے رن آف انتخابات کے نتائج سامنے آئے جن میں سابق وزیر اعظم اور موجودہ صدر نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کی۔

رجب طیب اردوان نے باسفورس کے ایشیائی کنارے پر واقع استنبول کے مضافاتی علاقے اسکودار میں اپنی جیت کا اعلان کیا۔ اس علاقے میں زیادہ تر متوسط طبقے کے لوگ رہائش پذیر ہیں جہاں خواتین حجاب لیتی ہیں اور دن میں 5 بار اذان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جسے رجب اردوان کے حامیوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

انتخابی مہم میں استعمال ہونے والی بس کی چھت پر چڑھ کر رجب اردوان نے اپنے حامیوں کو مبارکباد دی اور اپنے مخالفین پر طنز کیا جنہیں وہ کمالسٹ کہتے ہیں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ رجب طیب اردوان نے جو پہلا عوامی دفتر سنبھالا تھا وہ استنبول کے میئر کا عہدہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ استنبول کے رہائشیوں کو بہتر خدمات مہیا کرنے کے ساتھ ہی شہر کی بہتری کا سہرا بھی انہیں کے سر جاتا ہے۔

رجب طیب اردوان کی فتح نہ صرف ترکیہ بلکہ خطے کی نئی حقیقتوں کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ سب سے پہلے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ترکیہ میں چند ماہ پہلے آنے والے تباہ کُن زلزلے جس میں ہزاروں افراد کے جانی نقصانات کے علاوہ بڑے پیمانے پر مالی نقصان بھی ہوا تھا، اس کے باجود رجب طیب اردوان 52 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

ناقدین نے اردوان کی حکومت پر تعمیراتی ضابطوں پر عمل درآمد نہ کرنے اور قدرتی آفت کی ہنگامی صورتحال میں موثر ردِعمل نہ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔ شاید اسی وجہ سے رجب طیب اردوان کی جیت کا تناسب بہت زیادہ نہیں رہا۔

حتیٰ کہ وہ علاقے جو زلزلے سے شدید متاثر ہوئے تھے، وہاں سے بھی رجب طیب اردوان بڑی تعداد میں ووٹ لینے میں کامیاب رہے۔ شاید وہاں کے رہائشیوں کو اندازہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر آئے زلزلے ہر اس حکومت کو پریشان کردیں گے جو متاثرین کو امداد فراہم کرنے کی کوشش کریں گی۔ جو ووٹ رجب اردوان کو پُرجوش انداز میں دیے جانے تھے، لوگوں نے وہی ووٹ ہچکچاہٹ میں ہی سہی لیکن انہیں کے حق میں ڈالے۔ دونوں صورتوں میں انہیں ووٹوں سے اردوان کی جیت ہوئی۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ مغربی مبصرین نے اس بات پر زور دیا کہ اردوان کی حکومت مغربی امدادی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرنے میں ناکام رہی جبکہ ترک عوام نے بھی کچھ ایسے ہی رویے کا اظہار کیا اس کے پیچھے ممکنہ طور پر اردوان کے حامیوں کے عالمی برادری پر عدم اعتماد کو وجہ بتایا گیا۔ ان انتخابات میں مغرب بھی اردوان کی شکست کی خواہش کررہا تھا لیکن اردوان ترکیہ کے رہنما کے طور پر اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔

انتخابات سے مہینوں بلکہ سالوں پہلے ہی ریاستی مشینری کو رجب طیب اردوان کی کامیابی کے امکانات کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا جس میں قدرتی طور پر ریاستی میڈیا بھی شامل تھا۔ اپنے مخالفین کے مقابلے میں رجب طیب اردوان کو ریاست کے زیرِ کنٹرول میڈیا تک زیادہ رسائی حاصل تھی۔

یہاں یہ بحث بھی کی جاسکتی ہے کہ جب وہ 1990ء کی دہائی میں استنبول کے میئر بنے تھے تب انہوں نے یہ کامیابی ریاستی میڈیا کی حمایت کے بغیر حاصل کی تھی۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا ضرروی ہے کہ ترک میڈیا کی آواز کو گزشتہ دہائی میں متعدد بار دبانے کی کوشش کی گئی، ایک ایسا عنصر جس کا تعلق ایئر ٹائم سے کم اور ان آوازوں سے زیادہ ہے جو مین اسٹریم میڈیا پر سنی جاسکتی ہیں۔ تاہم عام انتخابات پر شاید اس کا فوری اثر نہ ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میڈیا پر کنٹرول نے ترکیہ کے عوامی مباحث کو بھی متاثر کیا ہے۔

اگرچہ رجب طیب اردوان کامیاب ہوگئے ہیں لیکن دشواریوں سے بھرپور راستہ ان کا منتظر ہے۔ ان میں سے سب سے اہم مسئلہ معیشت ہے۔ انتخابات سے قبل معیشت کو سہارا دینے کے لیے اردوان کی پارٹی کے زیرِ کنٹرول مرکزی بینک نے قرضے فراہم کیے تھے تاکہ معیشت میں نقد رقم کا اضافہ ہوسکے۔

یہ وقتی طور پر تو موثر ثابت ہوا لیکن اب جب انتخابات ختم ہوچکے ہیں تب اس کے اثرات ظاہر ہوں گے۔ اس معاشی اقدام کے اثرات میں زیادہ قدر والا ترک لیرا بھی شامل ہے۔ انتخابات سے ایک سال پہلے ترک لیرا کی قیمت میں ڈالر کے مقابلے انتہائی کم ہوگئی تھی لیکن چند ماہ بعد اس کی قدر بہتر ہونے لگی۔ لیکن اب لیرا کی اصل قدر کو بحال کرنا ہوگا جو ترکیہ کی معیشت کو بدحالی کی جانب لے جائے گا۔

جبکہ دوسری جانب رجب طیب اردوان کے زیرِ اثر ترکیہ، یورپ کے لیے مشکلات پیدا کرے گا۔ انہوں نے کبھی بھی یوکرین میں جاری جنگ کے حوالے سے دلچسپی نہیں دکھائی جبکہ وہ نیٹو میں سویڈن کی رکنیت کی بھی مخالفت کررہے ہیں۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ترکی نیٹو میں اپنی پوزیشن کو سودے بازی کے لیے استعمال کررہا ہے۔ یہ امر اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ایک بلاک کی حیثیت سے یورپی یونین نظریاتی طور پر کتنا کمزور پڑ چکا ہے۔ یہ اتحاد اب لبرل جمہوریت کا وہ قلعہ نہیں رہا جو کبھی رجب طیب اردوان کے آمرانہ اقدامات پر تنقید کیا کرتا تھا۔

یورپی یونین کے ممالک کی اپنی جمہوریتیں زوال کا شکار ہیں۔ کچھ ممالک (جیسے ہنگری) آمرانہ نظام کے حوالے سے بلا روک ٹوک باتیں کررہے ہیں جبکہ کچھ ممالک اس سمت تیزی سے پیش قدمی کررہے ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اردوان کا نیا صدارتی دور پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور مختلف دنیا میں شروع ہورہا ہے۔ دو عالمی قوتیں یعنی امریکا اور چین ویسے کو ایک دوسرے کے آمنے سدامنے آچکے ہیں لیکن ان کے درمیان جاری تنازعے کی اصل نوعیت واضح نہیں ہے۔ تقسیم کا شکار اس دنیا میں ترکیہ جیسے ممالک بھی بڑی حد تک علاقائی اثرورسوخ رکھتے ہیں جو کچھ عرصہ قبل ایک یک قطبی دنیا میں ممکن نہیں تھا۔

یہ معلوم نہیں کہ انتخابات اور بعدازاں رن آف انتخابات میں ووٹ ڈالتے ہوئے ترک عوام نے ان چیزوں کو مدِنظر رکھا تھا یا نہیں۔ تاہم ایک بات یقینی ہے کہ ان کے لیڈر رجب طیب اردوان کئی برسوں سے عالمی سطح پر ان کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اگر وہ عالمی لیڈر بننے کی اہلیت نہیں بھی رکھتے تب بھی وہ پاور بروکر کی حیثیت سے تبدیل ہوتی اس دنیا میں ترکیہ کے کردار کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔


یہ مضمون 31 مئی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔