میں نے پرسوں رات بستر پر لیٹنے اور سونے کے تمام معروف حربے آزمانے کے بعد ابھی اپنی کروٹیں گننی شروع ہی کی تھیں کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ دل ہی دل میں فون کرنے والے کو کوستے ہوئے کال ریسیو کی تو لائن پر ایک بزرگ دوست تھے جنہوں نے سلام دعا کی زحمت کیے بغیر ایک سوال داغ دیا؛
"ہاں بھئی تم بڑے بلاگ شلاگ لکھتے ہو یہ بتاؤ امّت مسلمہ کو کیا کرنا چاہئے؟"
میں اس سوال کے سیاق و سباق کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ ان صاحب نے میری خاموشی سے اندازہ لگا لیا کہ مجھ تک ابھی وہ خبر نہیں پہنچی جس کا انہیں علم ہو چکا ہے۔ میرے بے خبری پر پھٹکار بھیجنے کے بعد میرے محترم نے مجھے اس خبر سے سرفراز کیا کہ امریکہ نے شام پر حملے کا ارادہ کر لیا ہے اور کانگرس سے منظوری کے بعد اقوام متحدہ کے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق رپورٹ سے قطع نظر امریکہ جمہوریت کے فروغ اور امن عامّہ کی حفاظت کے لیے شام پر حملہ کر دے گا۔
یعنی ہم جلد ہی امریکہ اور القائدہ دونوں کو شام میں جمہوریت یا خلافت یا شاید دونوں کے لیے بشار الاسد کے خلاف جنگ لڑتے دیکھیں گے۔ ادھر خادم حرمین شریفین جنگ کی آگ میں تیل ڈالنے کے ساتھ ساتھ غلاف کعبہ پکڑ کے امریکہ یا القائدہ یا پھر دونوں کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں گے۔
اس وقت تو میں نے محترم دوست سے یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ میں سونے والا تھا، تاکہ ٹی وی کھول کے اپنی بے خبری کا ازالہ کر سکوں لیکن انہیں اپنے سوال یعنی امّت مسلمہ کو کیا کرنا چاہئے کے جواب کے لیے اصرار کرتا سن کے میں نے اجازت چاہنے سے پہلے انہیں ایک لطیفہ سنا دیا۔
اس لطیفے کے مطابق ریلوے میں ملازمت کے امیدوار سے انٹرویو بورڈ نے یہ پوچھا کہ اگر تم ایک ہی لائن پر دو ٹرینوں کو آتے دیکھو تو کیا کرو گے؟ امیدوار نے جواب دیا کہ میں کانٹا بدلنے والے کو خبر دوں گا۔
انٹرویو کرنے والے نے پوچھا کہ اگر وہ اپنی جگہ نا ہو تو؟ امیدوار نے کہا کہ میں سٹیشن ماسٹر کو بتاؤں گا۔
اگلا سوال آیا کہ اگر وہ بھی چھٹی پر ہو تو؟ امیدوار نے کہا کہ میں لال کپڑا لہرا کے ٹرین ڈرائیور کو خطرے سے آگاہ کرنے کی کوشش کروں گا۔
سوال ہوا کہ اگر لال کپڑا بھی نا ملے تو؟ نوکری کے امیدوار نے کہا کہ اس صورت میں میں اپنی خالہ کو فون کروں گا کہ فوراً پہنچیں۔
انٹرویو کرنے والے نے حیرت سے پوچھا کہ تمہاری خالہ وہاں کیا کریں گی۔ امیدوار نے کہا کہ کر تو وہ کچھ نہیں سکیں گی لیکن انہیں ٹرین کی ٹکر دیکھنے کا بہت شوق ہے۔
اس وقت جب کہ امریکہ اقوام متحدہ کے کانٹا بدلنے کا انتظار کرنے پر تیار ہے نہ اقوام متحدہ کانٹا بدلنے کے لیور پر زور لگانے کے لیے آمادہ نظر آتی ہے۔ چین کا لال کپڑا کہیں کھو گیا ہے اور روس کا سٹیشن ماسٹر اپنی لالٹین کا تیل لینے سعودی عرب گیا ہوا ہے تو امّت مسلمہ کی خالہ عرف پاکستان ٹرین کی ٹکر دیکھنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتی ہے۔
تفنن برطرف، اس صورتحال میں یہ سوال کہ امّت مسلمہ کو کیا کرنا چاہیے اتنا بے معنی ہے کہ اس کا ریلوے کے امیدوار سے زیادہ مناسب جواب نہیں دیا جا سکتا۔
ہمارے ایک دوست نے ایک بار ایسی چیزوں کی فہرست بنائی تھی جن کا ذکر عام طور پر سنا جاتا ہے لیکن انہیں دیکھا کسی نے نہیں۔ اس فہرست میں اڑن طشتریوں اور چاند کی بڑھیا کے بعد تیسری مقبول لیکن ناپید چیز امّت مسلمہ تھی۔
ہم نے اس فہرست پر بہت بحث کی تھی لیکن ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں ناکام رہے تھے کہ جب ہمارے سکولوں کی کتابوں سے فارن پالیسی تک امّت مسلمہ ہر جگہ موجود ہے تو ہم اپنے بچوں کو چاند کی بڑھیا کے بارے میں کیوں نہیں پڑھاتے اور یہ بھی کہ ایلینز سے برادرانہ تعلقات قائم کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟