پاکستان

واجبات کی عدم ادائیگی کے سبب پشاور بی آر ٹی سروس بند ہونے کا خدشہ

50 کروڑ روپے سے زائد رقم واجب الادا ہے، مطلوبہ فنڈز موجود ہیں لیکن سیاسی مداخلت ادائیگیوں میں تاخیر کا سبب بن رہی ہے، حکام

حکومت خیبرپختونخوا کی جانب سے پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) آپریٹرز کے 50 کروڑ روپے سے زائد کے واجبات کی عدم ادائیگی کے سبب سروس کی معطلی کا خدشہ پیدا ہوگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پشاور بی آر ٹی سروس شہر میں روزانہ کی بنیاد پر 3 لاکھ مسافروں کو سفر کی سہولت فراہم کرتی ہے، حکام نے بتایا کہ بی آر ٹی آپریٹر ڈائیوو پاکستان اور ایل ایم کے ریسورسز پاکستان نے مسئلہ جلد از جلد حل کرنے کے لیے صوبائی حکومت کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت پر دونوں کمپنیوں کی 50 کروڑ روپے سے زائد رقم واجب الادا ہے، بی آر ٹی سرکاری کمپنی ’ٹرانس-پشاور‘ کی زیرملکیت ہے جس کے پاس مطلوبہ فنڈز موجود ہیں لیکن سیاسی مداخلت ادائیگیوں میں تاخیر کا سبب بن رہی ہے۔

نگران وزیر ٹرانسپورٹ شاہد خان خٹک نے اس معاملے سے لاعلمی کا اظہار کیا تاہم اس حوالے استفسار کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری سے بات کریں، فنڈز کا معاملہ ان کا دائرہ کار ہے۔

دستیاب دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈائیوو نے 27 اپریل اور 17 مئی کو ٹرانس-پشاور کے سامنے واجبات کا معاملہ اٹھایا تھا، 23 مئی کو کمپنی نے باضابطہ طور پر نگراں وزیر اعلیٰ محمد اعظم خان سے درخواست کی کہ وہ واجبات ادا کریں۔

ڈائیوو کا بھی کہنا تھا کہ اس نے 27 اپریل اور 17 مئی کو متعلقہ حکام کو سنگین خدشات سے متنبہ کیا تھا لیکن تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

کمپنی نے کہا کہ ہم نے ٹرانس-پشاور کے چیف سیکریٹری اور چیف ایگزیکٹو آفیسر سے بھی ملاقاتیں کیں لیکن اس مسئلے پر اب تک کوئی توجہ نہیں دی گئی، ٹرانس-پشاور کے پاس مطلوبہ فنڈز دستیاب ہیں لیکن ادائیگی میں غیر ضروری تاخیر کی جا رہی ہے۔

کمپنی نے مزید کہا کہ 45 کروڑ روپے کی عدم ادائیگی شدید مالی دباؤ کا باعث بن رہی ہے، اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو فنڈز کی کمی کی وجہ سے سروس کی فراہمی کا سلسلہ منقطع ہونے کا خدشہ ہے جس کے نتیجے میں پراجیکٹ بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔

17 مئی کو ٹرانس-پشاور کے سی ای او کو لکھے گئے ایک اور خط میں بی آر ٹی آپریٹر نے متنبہ کیا کہ اگر واجبات ادا نہ کیے گئے تو 23 مئی سے بس سروس معطل کر دی جائے گی۔

کمپنی کی جانب سے کہا گیا کہ ’ہم نے ٹرانس-پشاور کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے اور اسے حل کرنے کی درخواست کی ہے، اب تک ہم اپنے طور پر مالی بوجھ سنبھالنے میں کامیاب رہے ہیں، سروس میں بلا رکاوٹ فراہمی اور ذیلی ٹھیکیداروں کو بروقت ادائیگی یقینی بنائی ہے، تاہم معاملات سنبھالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

دوسری جانب ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹرانس-پشاور کے پاس کروڑوں روپے موجود ہیں جبکہ اس کی اضافی فنڈز کی درخواست بھی زیر سماعت ہے، ادائیگی میں تاخیر کا مقصد بی آر ٹی معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کرنا یا نیا معاہدہ کرنا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ ٹرانس-پشاور کے سی ای او نے صوبائی حکومت کو تحریری طور پر دباؤ سے آگاہ کیا تھا، اس حوالے سے مؤقف جاننے کے لیے ٹرانس-پشاور کے سی ای او سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم بار بار فون کالز اور ٹیکسٹ میسجز کے باوجود انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

سپریم کورٹ کے احکامات: مبینہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن نے کارروائی روک دی

ڈراما ’تیرے بن‘ میں ’نامناسب مواد‘ نشرکرنے پر پیمرا کا نوٹس

جوہری ہتھیار نصب کرنے کے منصوبے پر امریکا ہمیں لیکچر نہ دے، روس