کہا جاتا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے خاص طور پر تیل کی دولت سے مالا مال مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بھاری سرمائے کے ساتھ یورپ اور امریکہ میں سرمایہ کاری کرتے رہے ہیں۔ ڈالر کی قدر میں مسلسل کمی نے مشرقِ وسطیٰ کے سرمایہ کاروں اور بچت کاروں کو اُن کی بچتوں اور سرمائے کے تقریباً چالیس فیصدحصّے سے محروم کر دیا ہے۔ جب اسٹاک ایکسچینج میں ارزانی ہوتی ہے تو اس سے سب سے زیادہ متاثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو مفروضوں کی بنیاد پر لین دین کرتے ہیں۔
کچھ اندازوں کے مطابق مشرقِ وسطٰی کے تقریباً تین سے چار ٹریلین ڈالر یورپی منڈیوں میں ہیں۔ حالیہ رپورٹوں کے مطابق گزشتہ مالیاتی بحران میں مشرقِ وسطٰی کے بیش قیمت اثاثوں کا ایک بڑا حصّہ بھی ضائع ہو چُکا ہے۔
امریکہ معیشت کا جادوگر
امریکہ بحیثیت سپر پاور عالمی معاشی سرگرمیوں کا ایک بڑا مرکز اور ایک بہت بڑی کنزیومر مارکیٹ ہے۔ یہاں دنیا کے اکثر ملکوں کی مصنوعات فروخت ہوتی ہیں اور ان کی فروخت میں کمی سے متعلقہ ممالک کی معیشتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔امریکی سرمایہ کار دنیا کی اکثر اسٹاک مارکیٹوں میں سرمایہ کاری اور دیگر ممالک کی مصنوعات کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔اگرامریکہ میں کسی قسم کا مالیاتی بحران پیدا ہو تو ان کی جانب سے بیرونی سرمایہ کاری میں کمی ممکن ہے جو دوسرے ممالک کی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔ جس کی ایک مثال مارگیج (یعنی مکان رہن رکھ کر قرض حاصل کرنا)کا شدید بحران ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں امریکی قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی نہ کرنے کے باعث اپنے گھروں سے محروم ہوچکے ہیں۔
ڈیٹرائٹ، امارت سے دیوالیہ پن کی کہانی
ڈیٹرائٹ امریکی ریاست مشی گن کا ایک گنجان آباد شہر ہے، جہاں ٹائم میگزین کی رپورٹ کے مطابق لفظی طور پر نہیں بلکہ حقیقی طور پر چالیس فیصد اسٹریٹ لائٹس بند کردی گئی ہیں اور وہاں کی بہت سی سڑکوں پر اندھیروں کا راج ہے۔ یہی وہ شہر ہے جس کا شمار ساٹھ برس پہلے امریکا کے امیر ترین شہروں میں ہوتا تھا، اور شاید دنیا کے امیر ترین شہروں میں بھی، لیکن اب اس کے اُوپر بُرا وقت گزر رہا ہے۔ جس زمانے میں اس شہر کا عروج تھا، اس وقت شہر کی صنعتی پیدوار جمہوریت کو قوت بخشتی تھی اور یہاں کی فیکٹریز سے تیار ہوکر پورے امریکا میں پھیل جانے والی کاریں امریکا کو ایک جدید صورت دے رہی تھیں۔
اب یہی ڈیٹرائٹ ہے جسے 18 جولائی کو دیوالیہ قرار دے دیا گیا ہے۔ اب اس کے بارے میں پرانی باتیں گپ بازی معلوم ہوتی ہیں اور اب ماضی کی طرح اس شہر کی ترقی سے حسد کرنے والا کوئی نہیں۔ ایسا امریکا میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک وسیع و عریض میونسپلٹی ناکام ہوئی ہے، ناکام ہونے والوں میں سرمایہ کار بھی شامل ہیں۔ پنشن فنڈ سے متعلق اداروں کے کارکن متواتر لوگوں کے دروازے کھٹکھٹارہے ہیں، اور منتظر ہیں کہ کون اس فنڈ کی ادائیگی میں پہل کرتا ہے، لیکن عام لوگوں کی اکثریت پنشن میں کٹوتی کا سامنا کررہی ہےاور ان کا پنشن پلان برباد ہوگیا ہے۔ اس شہر کے باسی اپنے گھروں میں کسی بھی قسم اور درجے کا کام ملتوی کرچکے ہیں، اس لیے اس طرح کی سروس فراہم کرنے والے اداروں اور ہنرمندوں کا کام بھی مندا پڑچکا ہے۔
کرنسی نوٹ محض کاغذ کے ٹکڑے
بعض ماہرین اس بحران کو عالمی مالیاتی صورتِ حال سے جوڑتے ہیں جبکہ بعض کی رائے یہ ہے کہ مارگیج کے بحران سے نا صرف امریکی معیشت کو دھچکا لگا تھا بلکہ عالمی اقتصادیات بھی اس سے متاثر ہوئی تھی، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال ایک سنگین خطرے کی سمت اشارہ کررہی ہے اور اگر اس پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو یہ عفریت عالمی معیشت کو اپنی لپیٹ میں لے سکتاہے۔
گزشتہ دس سالوں سے امریکی اسٹاک مارکیٹ کے عالمی کردار میں اس قدر گراوٹ آتی جارہی ہے کہ ایک اندازے کے مطابق کھربوں ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے لیکن یاد رہے یہ سب اچانک ،غیر متوقع ،بلاوجہ اور حادثاتی طور پر نہیں ہورہا ہے بلکہ کافی عرصہ پہلے ماہرین نے اس کے خدشات ظاہر کیے تھے بلکہ یہ بھی بتایا تھا کہ اسٹاک مارکیٹ کی اس مندی کے بعدعالمی سطح پر سرمائے کی دنیا ایک ایسے خوفناک بحران اور انتشار کی زدمیں آسکتی ہے جسے دیکھ کر لوگ سوویت یونین کی تباہی اور بربادی کو بھول جائیں، یاد رہے سوویت یونین کے انہدام نے نصف دنیا کو متاثر کیا تھالیکن سرمائے کی دنیا کی بربادی سے پوری دنیا متاثر ہوگی اور ممکن ہے یہ اثرات اس صورت میں ظاہر ہوں کہ بنکوں اور تجوریوں کے نہاں خانوں میں پڑے کرنسی نوٹ محض کاغذ کے ٹکڑوں کی صورت اختیار کرجائیں۔
یو ایس اے، فیڈرل فنڈز کے سابق سربراہ ایلن گرین سپن نے کہا تھا کہ امریکی معیشت کا نام نہاد اُبھار غیر حقیقی بنیادوں پرکھڑا ہے، یہ غبارہ بھی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے بلبلوں پر مشتمل جھاگ ہے جو زیادہ دیر تک اپنی صورت میں قائم نہیں رہ سکتا۔ فیڈرل فنڈز کی کوشش ہے کہ سود کی شرح، افراط زر یا مہنگائی کی شرح سے نیچے رہے۔
مگر بہت سے ماہرین سوال کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ اور کیسے چلے گا؟ معیشت کے ایک اور عالمی ماہر مائیکل رابرٹس کے مطابق سرمائے کی دنیا میں اس اضطراب کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے بنکوں نے ایک سو بیس ارب ڈالرز کی مالیت کے قرضے معاف کر دیے ہیں اورایسے قرضوں کی مالیت پانچ سو ارب ڈالرز سے بھی تجاوز کر سکتی ہے جو معاف کرنے پڑیں چنانچہ عالمی سطح پر منافعوں کی شرح میں مزید کمی آئے گی اور آتی رہے گی۔ یوں دنیا نت نئے بحرانوں سے گزرتی رہے گی، ان میں سے ایک خوفناک بحران تو غذائی اشیاء اور پیٹرولیم کی قیمتوں میں تیز رفتار اضافے کا ہے۔ عالمی بنک نے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی قلت، عدم دستیابی اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث دنیا کو عنقریب قحط اور دیگر خوفناک قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
غذا کی قلت اور مہنگی گاڑیاں
اب اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ عالمی سطح پر دنیا تیزی سے غذائی قلّت اور قحط کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ بے شمار وسائل کے باوجود محض ناقص منصوبہ بندیوں کے باعث دنیا کا تقریباً ہر ملک پانی کی کمی اور غذائی اجناس کی قلت جیسے مسائل سے دو چار ہے۔ تیرہ اپریل دو ہزار آٹھ کو عالمی بنک کے ہیڈ کوارٹر واشنگٹن میں ایک اجلاس کے دوران ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ دنیا خوراک کی قلت کی وجہ سے خانہ جنگیوں اور بین الممالک جنگوں کے قریب آرہی ہے۔ ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل جیکبس ڈیوف نے بتایا ہے کہ خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان دو ہزار چار سے شروع ہوا تھا جو دو ہزار پندرہ تک جاری رہے گا۔
عالمی بینک کے سابق ڈائریکٹر رابرٹ زولیک کے مطابق ترقی پذیر ملکوں کی صورتِ حال نہایت عجیب اور المناک ہے کہ یہاں لاکھوں افراد قیمتی گاڑیاں مہنگے پیٹرول سے چلارہے ہیں جب کہ دوسری جانب بڑی تعداد میں غریب لوگ جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے دو وقت کی روٹی کے حصول میں مشکل ترین وقت گزار رہے ہیں۔ اس وقت بہت سے ترقی پذیر ملکوں میں صورتحال یہ ہے کہ غریبوں کی اکثریت زندہ رہنے کے لیے اپنی کل آمدنیوں کا پچھتر فیصد حصّہ خوراک پر خرچ کررہی ہے۔ گزشتہ سال کی نسبت مجموعی طور پر ان ملکوں میں گندم کی قیمتوں میں بیس فی صد تک اضافہ ہوچکا ہے اور آئندہ تین برسوں میں تراسی فیصد تک اضافے کے خدشات پائے جاتے ہیں۔
بارود کی بارش، بنجر زمینیں اور سٹے بازی
غذائی اجناس کی قلت اور ان کی قیمتوں میں اضافے کا ایک اہم سبب عالمی طاقتوں کی وہ پالیسیاں ہیں جن کے تحت وہ دنیا کے مختلف خطوں میں مکمل یا جزوی طور پر اپنی جنگجویانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں چنانچہ متاثرہ ممالک میں نا صرف جان و مال کا نقصان ہوا اور امن و امان غارت ہو کر رہ گیا بلکہ بارود کی بارش کے بعد ان علاقوں کی زمینیں بھی بنجر ہو گئی ہیں، جہاں کئی سال تک سبزہ اور غذائی اجناس کی پیداوار ممکن ہی نہیں لہٰذا وہاں قحط جیسی صورتحال پیدا ہوتی جا رہی ہے۔
غذائی اجناس کی قلت کا ایک اور سبب عالمی سرمایہ پرستوں کا سٹّے بازی کی طرف بڑھتا ہوا رجحان بھی ہے، جس کی وجہ سے سرمایہ چند ہاتھوں میں گردش کررہا ہے۔ جوئے اور سٹہ بازی کی اس روش نے جہاں کم سے کم وقت میں سرمائے کو دُگنا یاتین گنا کرنے کا راستہ دکھایا ہے وہیں اس کے لیے نت نئے میدان بھی ہموار کیے جارہے ہیں، مثال کے طور پر ایک نیا میدان اسپورٹس کا ہے، ترقی پذیر ممالک کے سرمایہ داروں کی خاص دلچسپی اسی شعبے میں ہے لیکن عالمی سطح کے سرمایہ دار آج بھی عالمی اسٹاک مارکیٹ کے ذریعے ہی اپنے سرمائے میں دن دوگنا اور رات چوگنا اضافہ کررہے ہیں، امریکی معیشت میں سست روی کے خدشات اور اوپیک کی جانب سے پیداوار نہ بڑھانے کا فیصلہ خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
پٹرول کی قیمت میں روزافزوں اضافے کو ”پٹرول بم“ سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ پٹرول کی قیمت میں مسلسل اضافہ کا مطلب ہر قسم کے مصارف میں اضافہ ہے، جس سے غذائی اجناس کی پیداوار بھی مسلسل متاثر ہو رہی ہے۔ آج زندگی کا پہیہ پٹرول ہی کی بدولت رواں دواں ہے اور پٹرول کی قیمت میں اضافے سے زندگی کے ہر شعبے کی روانی متاثر ہو کر رہ جائے گی۔
اسی لیے توانائی کی بین الاقوامی مارکیٹ کے کرتا دھرتاؤں کی عالمی سیاست پر اجارہ داری ہے۔ توانائی کی بین الاقوامی مارکیٹ کے یہ اجارہ دار مصر، لیبیا اور ایرن میں جاری کشیدہ صورتحال سے فائدہ اُٹھارہے ہیں، اور اب ان کی نظریں شام پر ہیں جہاں امریکی حملہ متوقع ہے۔
شام اور تیل کی قیمتیں
جب بھی مشرق وسطیٰ پر کوئی مصیبت آتی ہے، یا کسی خطرے کا اندیشہ ہوتا ہے، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہوجاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ پچھلے دوسالوں کے دوران سب سے زیادہ رہا، اور دنیا بھر کے کاروباری طبقے کے لوگ خوفزدہ ہیں کہ شام پر اگر امریکہ نے حملہ کردیا تو پھر کیا صورتحال سامنے آئے گی۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکا کی جانب سے شام پر ممکنہ حملے کے پیش نظر عالمی منڈی میں خام تیل کی فی بیرل قیمت اٹھارہ ماہ کی بلند ترین سطح ایک سو نو ڈالرز سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق شام پر ممکنہ حملے کے جواب میں اتحادی ممالک میں موجود شامی حکومت کے حمایتی خام تیل کی پیداوار اور سپلائی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
عالمی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اوبامہ نے شام پر ممکنہ امریکی حملے کو کانگریس کی منظوری سے مشروط کرنے اور فوری طور پر حملے کا عندیہ نہ دینے کے بعد عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں کمی آئی ہے ۔خام تیل کی قیمت 1.50ڈالر کمی کے ساتھ ایک سو تیرہ ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شام پر امریکی حملے کا خطرہ فی الوقت تو ٹل گیا ہے، تاہم یہ کشیدگی عالمی منڈی پر اثرانداز ہوتی رہے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران خام تیل کی پیداوار میں تین ملین بیرل یومیہ کمی آئی ہے جس سے عالمی مارکیٹ طلب پوری نہ ہونے سے پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔
دوسری جانب انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ نے اس سال کی پہلی سہہ ماہی کے دوران تیل کی عالمی ضروریات کا پینتیس فیصد فیصد حصہ فراہم کیا ہے۔ چنانچہ ممکنہ جنگ کی صورتحال اور پٹرول کی فراہمی کی راہ میں پیدا ہونے والی رکاوٹ کے اندیشے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔
سچ صرف اتنا ہی نہیں ہے، مئی دو ہزار گیارہ میں جب نیٹو نے لیبیا کے رہنما معمر قذافی کے خلاف کارروائی کی تھی تو امریکی پٹرول کی قیمتیں دس فیصد سے بھی زیادہ گر گئی تھیں، اور ایسا ہی کچھ دس سال پہلے بھی ہوا تھا، جب امریکی قیادت میں اتحادی افواج نے عراق پر حملہ کیا تھا، تو بھی پٹرول کی قیمتیں پندرہ فیصد تک نیچے چلی گئی تھیں۔
البتہ دو ہزار تیرہ میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے، امریکی پٹرول کے ذخائر چار ماہ کے دوران اپنی زیادہ سے زیادہ حد کو پار کرچکے ہیں۔ اس وقت امریکا کے پاس چھتیس کروڑ بیس لاکھ بیرل کی مقدار میں خام تیل موجود ہے، اور تیل کی فراہمی میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ کی صورت میں امریکا پر اس کا اثر نہیں ہوگا۔
نشتند گفتند برخاستند
اکثر مسلمانوں کو ترقی یافتہ اقوام سے شکوہ رہتا ہے کہ پوری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں اُن پر مختلف طریقوں سے جو ظلم ہورہا ہے، توآخر یہ ترقی یافتہ اقوام اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیوں نہیں اُٹھاتیں؟
شاید وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں یا پھر انہوں نے دانستہ چشم پوشی اختیار کررکھی ہے کہ خود مسلمان، خصوصاً دولت مند اور وسائل سے مالا مال مسلمان، اپنے مظلوم بھائیوں پر ہونے والے ظلم کو روکنے کے لیے کیوں کچھ بھی نہیں کرتے؟ کیا محض کاغذی بیانات سے آگے بڑھ کر بھی کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے؟
اس کی سب سے اہم مثال اسلامی سربراہ کانفرنس ہے، جس کے اجلاس کو نشتند گفتند برخاستند کے سوا کوئی اور عنوان نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ عرب لیگ کا حال بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے، جو ایک ہی نسل اور زبان بولنے والے ممالک کا اجتماعی پلیٹ فارم ہے، چار سال قبل غزہ کے المیے پر غور و خوض کے لیے عرب لیگ کی طلب کی گئی عرب سربراہ کانفرنس بھی اختلافات کا شکار ہوگئی تھی۔ اس لیے کہ مذمت کی قرارداد کے الفاظ پر ہی اختلاف پیدا ہوگیا اور اس انتشار کی وجہ سے غزہ میں تعمیرِ نو کے لیے امدادی رقم کا اعلان بھی نہ ہوسکا تھا۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر عرب ممالک چاہیں تو دنیا میں جاری معاشی و معاشرتی دھارے کا رُخ بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ دنیا کے کل دریافت شدہ تیل کا دو تہائی خلیج فارس سے نکلتا ہے۔ سعودی عرب 26 فیصد یعنی 262 بلین بیرل ، عراق 11 فیصد، متحدہ عرب امارات 10 فیصد ، کویت 10 فیصد اور ایران 8 فیصد۔ دنیا کے قدرتی گیس کے وسائل میں 40 فیصد مسلمان ملکوں میں پائے جاتے ہیں،جبکہ وہ وسائل جو ابھی دریافت کرنا یا نکالنا باقی ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ وسطی ایشیائی مسلمان ریاستوں میں قازقستان کے پاس 17 ملین بیرل تیل اور 83 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے مصدقہ ذخائر ہیں۔ ترکمانستان کے پاس 155 ٹریلین کیوبک فٹ گیس ہے اور وہ دنیا کا چوتھا بڑا گیس پیدا کرنے والا ملک ہے۔ ازبکستان اور کرغستان سونے کی پیداوار میں دنیا میں اہم درجے پر ہیں۔ تاجکستان کے پاس ایلومینیم کے ذخائر دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔ مہذب دنیا کی ساری رونق، چہل پہل اور ترقی تیل اور گیس کی مرہونِ منت ہے جو مسلم دنیا کے پاس ہے، لیکن عالمی طاقتیں جہاں ان وسائل سے فائدہ بھی اُٹھاتی ہیں وہیں ایسا انتظام بھی کرتی ہیں کہ ان وسائل پر ایسے لوگوں کا اقتدار و اختیار قائم رہے جو مسلم اُمّہ کے اجتماعی مفادات کے برعکس کام کریں۔
یہ حقیقت ہر صاحبِ فہم سمجھ سکتا ہے کہ جس دنیا میں نفٹا، نیٹو، ای یو، جی ایٹ اور ڈی ایٹ جیسی عالمی گروہ بندیاں قائم ہوں، ایک دفاع، ایک کرنسی، ایک پارلیمنٹ وجود میں آگئی ہو، وہاں مسلم اُمہ کو متحد کرنے کے لیے آخر کون سا امر مانع ہے؟
شطرنج اور شطرنج کے کھلاڑی
بریز نسکی جو امریکی صدر جمی کارٹر کی کیبنٹ میں قومی سلامتی کے مشیر تھے، نے اپنی کتاب دی گرینڈ چیس بورڈ میں لکھا تھا کہ ”جب ہم دنیا کا نقشہ اُٹھا کر دیکھتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ساری معدنی دولت اُن علاقوں میں موجود ہے جہاں مسلمان رہتے ہیں۔“ یہ بریزنسکی ہی تھے جنہوں نے ستر کے عشرے میں ان علاقوں پر امریکی قبضے کی تجویز پیش کی تھی۔
سینٹرل ایشیا کی نو آزاد مسلم ریاستوں پر بھی امریکہ اپنی گرفت کو اسی لیے مضبوط کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ یہ ریاستیں معدنی دولت سے مالا مال ہیں۔ صرف قازقستان کا عالم یہ ہے کہ سعودی عرب سے تین گنا زیادہ پیٹرول کا سیال سونا موجود ہے۔ افغانستان جو دنیا بھر میں صومالیہ کے بعد سب سے بڑا نیم فاقہ کش ملک ہے اور علمی و اقتصادی لحاظ سے انتہائی پست درجے پر کھڑا ہے، معدنی دولت کے بے پناہ ذخائر کا حامل ہے اور یہ ذخائر مقامی لوگوں سے یکسر پوشیدہ ہیں بلکہ اُن کا زمینی سروے بھی ممکن نہیں، اس لیے کہ افغانستان کے چپے چپے پر تو بارودی سرنگوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ یہ بھی یاد رہے دنیا بھر میں سب سے زیادہ بارودی سرنگیں اِسی ملک میں ہیں۔ لیکن جدید سائنس اور ٹیکنالوجی پر دسترس رکھنے کی بناء پر امریکہ اِن معدنی ذخائر کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرسکتا ہے، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اس حد تک جاپہنچی ہے کہ خلاء سے زمین کی خاص گہرائی تک موجود معدنیات کا باآسانی پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ بہت سے خطوں میں تو مسلمان ان قیمتی وسائل اور نعمتوں کی اہمیت اور افادیت سے آج بھی بالکل بے خبر ہیں۔
شاید عالمِ اسلام برسوں سے عالمِ عرب اور عالمِ عجم کے مابین تقسیم ہوچکا ہے۔
(جاری ہے)