دورے میں بھارتی ہم منصب سے دوطرفہ ملاقات نہ کرنے کا فیصلہ کیا، بلاول بھٹو زرداری
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کے لیے جانے سے پہلے فیصلہ کیا گیا تھا کہ اپنے بھارتی ہم منصب سے دوطرفہ ملاقات نہیں کریں گے۔
بلاول بھٹو نے بھارت میں ایس سی او کے اجلاس میں شرکت اور مقبوضہ کشمیر میں جی-20 پر سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اگست 2019 کے بعد ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ میرے لیے انفرادی طور پر اور دفتر خارجہ کے لیے بہت مشکل تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اس معاملے پر اتفاق رائے کے لیے بہت کوششیں کیں، ہم نے یہ فیصلہ کرنے سے قبل سابق سیکریٹری خارجہ سے مشورہ لیا اور حقیقت یہ ہے کہ پہلی دفعہ ہمیں جب پتا چلا کہ بھارت میں ایس سی او کا اجلاس ہو رہا ہے تو کوئی دلچسپی نہیں تھی اور خاص طور پر میرے لیے جذباتی وجہ سے بھی دلچسپی نہیں تھی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جب ہم نے مل بیٹھ کر سوچا اور دفتر خارجہ میں اجلاس بھی کیے اور پھر فیصلہ کیا گیا کہ ایس سی او ایک بین الاقوامی فورم ہے، جیسا اقوام متحدہ یا جی-77 کے اجلاس ہوتے ہیں تو وہ دوطرفہ نہیں کہلاتے اسی طرح ایس سی او بھی کثیرالاقوامی فورم ہے، اسی طرح روس اور چین اس فورم کے بانی ارکان ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے میں یہ نکتہ بھی دکھا گیا کہ اس کے بانی ارکان اور چین ہمارے لیے سب سے اہم ہیں، میں کبھی کوئی پلیٹ فارم چھوڑنے کا حامی نہیں ہوں، اس فورم میں بھی سوچا گیا کہ جہاں پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) بنیادی طور پر ہمارا ایجنڈا آئٹم ہے اور اس حوالے سے ہم نے سوچا کہ ضروری ہے کہ ہم اس انداز میں جائیں کہ نہ صرف بھارت اور ان ممالک بلکہ دنیا کے سامنے پاکستان کا مؤقف رکھیں اور اگر ہم نہیں جاتے تو ہم اپنا نقصان کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کسی کے لیے میدان کھلا کیوں چھوڑیں، اسی طرح وہاں جانے سے پہلے میں نے انفرادی طور پر اپنے اتحادیوں اور اتحادی جماعتوں کے سربراہاں سے مشاورت کی کوشش کی تاکہ ان کی تجاویز کے ساتھ جاؤں۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جانے کا فائدہ یہ ہوا کہ میں نے پاکستان کا بیانیہ سامنے رکھا جبکہ میزبان ملک کا ارادہ تھا کہ اس پلیٹ فارم کا بھی غلط استعمال کرکے اپنے بیانیے کو بغیر چیلنج کے سامنے رکھے جہاں دو طرفہ مسائل اصولی طور پر نہیں اٹھائے جاتے ہیں، لیکن اس نے نام لیے بغیر ایسے چند مسائل کا ذکر کیا تھا تو پھر ہم نے بھی مناسب سمجھا کہ کسی کا نام لیے بغیر پاکستان کا مؤقف سامنے رکھا اور جو بھارت کی پیغام رسانی میں دہشت گردی کے بارے میں خیال تھا کہ مسلمان، پاکستانی اور کشمیری دہشت گرد ہیں تو ان کے بیانیے کا منہ توڑ جواب تھا کہ میں وہاں بیٹھ کر سمجھاؤں۔
بھارت میں ایس سی او کے اجلاس میں دہشت گردی پر رکھے گئے اپنے مؤقف کو دہراتے ہوئے انہوں نے اجلاس کو بتایا کہ یہاں موجود سارے ممالک میں دہشت گردی سے ہونے والے نقصانات کو ملا بھی دیں تو پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے جتنے لوگ شہید ہوئے ہیں اور نقصان ہوا ہے وہ سب سے زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں شریک تمام وزرائے خارجہ، سوائے ایک کے، سے ملاقات ہوئی لیکن ہم نے جانے سے پہلے اصولی طور پر طے کیا تھا کہ 2019 کے واقعات کی وجہ سے ہم نے اپنے بھارتی ہم منصب سے دوطرفہ ملاقات نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، یہ ہمارا اصولی اور خارجہ پالیسی کا فیصلہ تھا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اسی وجہ سے ہم بھارت سے ریاستی طور پر سود مند بات نہیں کرپائے، میں بھارت کے شہریوں سے مخاطب ہونے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ ایک بحران ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان عوامی اور ثقافتی حوالے سے عوامی رابطہ ہوتا تھا وہ ضائع ہوگیا ہے اور مجھے اس دورے سے بہترین موقع ملا تھا جہاں بھارت کے صحافیوں کے ذریعے بھارت کے عوام کے ساتھ براہ راست مخاطب ہونے کا موقع ملا۔
انہوں نے کہا کہ وہاں انٹرویوز میں ہماری کوشش تھی کہ ایک بیانیہ جو مسلمانوں، کشمیریوں اور پاکستانیوں کے بارے میں پھیلایا جا رہا ہے اس کی حوصلہ شکنی کی جائے اور اس کا انسداد کرنے کی کوشش کی کہ ہم سب دہشت گرد نہیں بلکہ ہم پرامن لوگ ہیں اور درحقیقت ہم امن چاہنے والے لوگ ہیں اور اگر اس امن میں کوئی رکاوٹ ہیں تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے 2019 کا فیصلہ کیا اور کسی نہ کسی بہانے سے ہمارے ساتھ بات چیت آگے نہیں لے کر جا رہے ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمیں ان باتوں کے لیے موقع زیادہ لینا چاہیے، اپنے میڈیا چینلز میں جاتے ہیں، اسی طرح پاکستان کے سیاست دان، سیاسی قیادت اور اراکین پارلیمنٹ کو بھارت کے میڈیا سے ضرور بات کرنی چاہیے تاکہ جو پاکستان، پاکستانیوں اور مسلمانوں کے بارے میں جو بدگمانیاں پھیلائی جا رہی ہیں اس کا سدباب کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں اپنے دورے کے موقع پر عوامی اور میڈیا میں بتایا جہاں انہوں نے پورے قواعد کے تحت میزبانی کا حق ادا کیا اور بھارت کے وزیر خارجہ نے ملاقاتوں کے دوران کوئی برا تاثر نہیں دیا لیکن بدقسمتی سے جاتے ہوئے ہمارے پیٹھ پیچھے کچھ ایسے الفاظ استعمال کیے گئے اور جذبات کے ساتھ پریس کانفرنس کی گئی جو مناسب نہیں تھی اور یہ ایس سی او کی سربراہی کا غلط استعمال تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایس سی او کے پریس اور اراکین ممالک کے پرچم اور نام بھی ہو وہاں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف جس طریقے سے الفاظ استعمال کیے گئے وہ غیرمناسب تھا اور ایس سی او قواعد کی خلاف ورزی تھی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے، پاک-بھارت دو طرفہ مسائل اور ایس سی او کے تحت ہماری دو طرفہ جو ذمہ داریاں ہیں، اس حوالے سے یہ دورہ تعمیری اور مثبت تھا اور آگے جا کر ہمارے وزیر اعظم یعنی ریاست کے سربراہان کے اجلاس میں شرکت کے حوالے سے ہمیں فیصلہ کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ مستقبل میں 2026 اور 2027 میں پاکستان کی باری ہوگی کہ ہمیں ایس سی او کی میزبانی کی ذمہ داری ملے گی اور جب وہ موقع ملے گا تو سفارتی آداب کے تحت بھارت بھی اسی طرح بات کرے گا جس طرح میں نے کیا۔