پاکستان

انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان بڑا فرق: روپے کی قدر میں بڑی کمی کی قیاس آرائیاں

اوپن مارکیٹ میں ڈالر 309 روپے جبکہ انٹربینک مارکیٹ میں 287 روپے 13 پیسے پر بند ہوا۔

انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان شرح تبادلہ میں فی ڈالر 22 روپے کا بڑا فرق دیکھا گیا، جس کے سبب مقامی کرنسی کی قدر میں بڑے کمی کی قیاس آرئیاں مضبوط ہو رہی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 26 جنوری کو شرح تبادلہ سے کیپ ہٹا دیا گیا جس کے بعد ایک دن میں روپے کی قدر میں دو دہائیوں کے دوران بڑی تنزلی دیکھی گئی، اُس دن روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 9.6 فیصد یا 25 روپے فی ڈالر کم ہونے کے بعد 255 روپے پر بند ہوا، اس کا مقصد آئی ایم ایف کی مارکیٹ کی بنیاد پر شرح تبادلہ کے مطالبے کو پورا کرنا تھا۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں محض 2 پیسے کی کمی ہوئی لیکن اوپن مارکیٹ میں یہ 312 روپے کی بُلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے رپورٹ کیا کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 309 پر بند ہوا جبکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بتایا کہ انٹربینک مارکیٹ میں روپیہ 287 روپے 13 پیسے پر بند ہوا تھا۔

ان دونوں مارکیٹوں میں فی ڈالر فرق 22 روپے کی سطح پر پہنچ گیا جس کے بعد مرکزی بینک کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ بینکوں میں شرح تبادلہ کو برقرار رکھ سکے، اس کی وجہ سے ترسیلات زر میں کمی ہوئی جس میں گزشتہ مہینے 29 فیصد تنزلی ہوئی اور موجودہ مالی سال کے ابتدائی 10 مہینوں کے دوران 13 فیصد کم ہوئی۔

ماہرین کے مطابق 22 روپے فرق کی وجہ سے روپے کی قدر میں بڑی کمی ہوسکتی ہیے۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا نے کہا کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی غیر متوقع بُلند قیمت کی تین وجوہات ہیں، پہلی زرمبادلہ کی آمد کم ہو رہی ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ بینکس کھاتے داروں اور ایکسچینج کمپنیوں کو ڈالر فراہم نہیں کررہے، اور آخری وجہ خراب ہوتی سیاسی صورتحال ہے جس کی وجہ سے لوگ مارکیٹ میں ڈالر فروخت نہیں کررہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اوپن مارکیٹ میں معمولی حجم کے مقابلے میں تجارت سکڑ کر صرف 20 فیصد رہ گئی ہے جبکہ زیادہ تر خریدار ہیں۔

ظفر پراچا نے مزید کہا کہ زیادہ تر پاکستانی غیر ملکی کرنسیوں کو فروخت نہیں کررہے اور اس کی وجہ شرح تبادلہ میں اتار چڑھاؤ ہے۔

روپے کی قدر میں بڑی کمی

انہوں نے روپے کی قدر میں بڑے کمی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا تاکہ انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر اوپن مارکیٹ کے قریب آجائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فرق کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ درآمدکنندگان کو درآمدات کے لیے ڈالر کا انتظام کرنے کی اجازت دی گئی ہے، اس سے گرے مارکیٹ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

ظفر پراچا نے بتایا کہ گرے مارکیٹ میں فی ڈالر کے لیے 320 سے 322 روپے کے درمیان پیش کش کی جارہی ہے۔

کرنسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ خراب سیاسی صورتحال کی وجہ سے آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

میڈیا میں رپورٹس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ مالی سال 2023 کی معاشی شرح نمو منفی رہ سکتی ہے، یہ ملک کے لیے ایک دھچکا ہوگا، جسے پہلے ہی ڈیفالٹ کے حوالے سے خدشات کا سامنا ہے۔

’پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورین ڈراموں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت‘ آخر اس کا راز کیا ہے؟

18 ارب ڈالر جرمانے سے بچنے کیلئے امریکا سے پاک-ایران گیس پائپ لائن کی اجازت طلب

پی ٹی آئی کے مزید 245 کارکنوں کے بیرون ملک سفر پر پابندی کی درخواست