پاکستان

صارفین کا مہنگی لیز پر گاڑیاں خریدنے سے گریز

سیاسی استحکام کی بحالی اور آئی ایم ایف کے قرض کی منظوری تک آٹو فنانسنگ کم از کم آئندہ 6 ماہ تک کم رہے گی، سربراہ ٹاپ لائن سیکیورٹیز

گاڑیوں کے واجب الادا قرضوں کی مقدار میں کمی کا سلسلہ مسلسل 10ویں ماہ بھی جاری رہا، یہ گزشتہ برس جون میں 368 ارب روپے تھا جوکہ رواں برس اپریل میں 16 فیصد کمی کے بعد 308 ارب روپے ہوگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ مارچ میں 317 ارب روپے کے برعکس گاڑیوں کے واجب الادا قرضوں میں 2.83 فیصد کمی دیکھی گئی۔

اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ کے پیش نظر پرائیویٹ بینکوں کی جانب سے آٹو لیزنگ میں مسلسل کمی کا سامنا ہے، مارچ 2020 میں پالیسی ریٹ 7 فیصد تھا جو کہ اب 21 فیصد پر پہنچ چکا ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے مکمل طور پر تیار شدہ کٹس کی درآمد پر پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے کے بعد جولائی 2022 سے آٹو سیکٹر دباؤ کا شکار ہے جس کی وجہ سے پلانٹ بار بار بند ہو رہے ہیں اور گاڑیوں کی ترسیل میں تاخیر ہو رہی ہے۔

تاہم اسمبلرز نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کو بنیاد بنا کر پلانٹ بند کرنے کے ساتھ ساتھ قیمتوں میں اضافہ بھی جاری رکھا۔

علاوہ ازیں اسٹیٹ بینک نے مہنگی کاروں کی فروخت کم کرنے کے لیے آٹو لون پر 30 لاکھ روپے کی حد جیسی مختلف پابندیاں بھی عائد کیں جس کے بعد آٹو لون کی ادائیگی کی مدت میں کمی کی گئی۔

سربراہ ٹاپ لائن سیکیورٹیز محمد سہیل نے کہا کہ میرے خیال میں سیاسی استحکام کی بحالی اور آئی ایم ایف کے قرض کی منظوری تک آٹو فنانسنگ کم از کم آئندہ 6 ماہ تک کم رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ آٹو فنانسنگ جس رفتار سے پچھلے 10 ماہ سے کم ہو رہی ہے وہ آنے والے مہینوں میں تبدیل ہو سکتی ہے کیونکہ اب لوگ یہ بات سمجھ رہے ہیں کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے اور سیاسی و معاشی حالات میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے، اب صرف وہ لوگ جو فنانسنگ کی استطاعت رکھتے ہیں اس کا انتخاب کریں گے۔

محمد سہیل نے کہا کہ گاڑیوں کی کُل فروخت میں آٹو فنانسنگ کا حصہ 40 سے 60 فیصد تھا جو کہ اب کم ہو کر 20 سے 30 فیصد رہ گیا ہے۔

تاہم مارکیٹ کے کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کار لیزنگ تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے کیونکہ شرح سود میں مسلسل اضافے کے بعد ماہانہ قسط میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

کار لیزنگک میں ڈیل کرنے والے ایک نجی بینک کے ملازم نے کہا کہ بہت سی نئی کمپنیوں نے اپنے زیادہ تنخواہ والے ملازمین کو نئی گاڑیاں دینا بند کر دی ہیں۔

انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ ہمارا بینک چند ماہ کے لیے ماہانہ 350 سے 400 گاڑیوں کی فنانسنگ کرتا تھا جبکہ اس وقت ہمارے پاس فنانسنگ کے لیے 90 سے 100 گاڑیاں ہیں جن میں زیادہ تر 10 سال سے کم پرانے ماڈل کی مقامی طور پر کم انجن والی استعمال شدہ گاڑیاں ہیں۔

ملک میں کار، جیپ، وین اور پک اَپ کی فروخت سالانہ بنیادوں پر 80 فیصد کم ہو کر اپریل میں 4 ہزار 463 یونٹس اور ماہانہ بنیادوں پر 52 فیصد تک گر گئی، رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران یہ فروخت ایک لاکھ 14 ہزار 868 یونٹس پر آگئی، جو کہ سالاہ بنیادوں پر 50 فیصد کمی ظاہر کرتی ہے۔

دریں اثنا مقامی اسمبلرز کی جانب سے مکمل طور پر اور نیم تیار شدہ کٹس کی درآمد رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں 51 فیصد کم ہو کر 68 کروڑ ڈالر تک آگئی جو کہ گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران ایک ارب 40 کروڑ ڈالر تھی۔

حکومت من مانی گرفتاریوں کا سلسلہ ختم کرے، ہیومن رائٹس واچ

کانز فلمی میلے میں پاکستانی فلم ’اِن فلیمز‘ کا پریمیئر، ہال تالیوں سے گونج اٹھا

معاشی بحران سیاسی مایوسی کے ساتھ جڑا ہے، سروے