نقطہ نظر

پی کے 8303 سانحہ: 3 سال بعد بھی لواحقین جوابات کے منتظر

طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین اس بات پر غم زدہ ہیں کہ 3 سال گزرنے کے باوجود حادثے کی وجوہات سامنے نہیں آسکیں۔

عارف اقبال فاروقی کے لیے 22 مئی کا دن کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔ ان کا دکھ اس قدر بڑا ہے کہ وہ کسی بھی طرح اس کو بھلائے نہیں بھول سکتے۔ جب بھی 22 مئی قریب آتا ہے تو ان کے زخم تازہ ہوجاتے ہیں کیونکہ اس دن پی کے 8303 طیارے کے حادثے میں ان کی اہلیہ اور 3 بچے دیگر مسافروں کی طرح لقمہ اجل بن گئے تھے۔

عارف اقبال کے ذہن میں 22 مئی 2020ء کی وہ صبح آج بھی تازہ ہے جب انہوں نے خوشی خوشی اپنی اہلیہ فوزیہ ارجمند، اپنے 16 سال کے بیٹے اسمٰعیل، 13 سال کی عنایہ اور 5 سال کی ایلیان کو لاہور ایئر پورٹ پر الوداع کہا اور اپنے دفتر روانہ ہوگئے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھاکہ آئندہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں ان کے پیارے ان سے جدا ہونے والے ہیں۔

اس دن کے بارے میں بات کرتے ہوئے عارف فاروقی کہتے ہیں کہ وہ دفتری کاموں میں مصروف تھے کہ ان کی والدہ کا فون آیا کہ فوزیہ اور بچے کس پرواز سے سفر کررہے تھے کیونکہ ایک طیارہ کراچی میں کریش کرگیا ہے اور اس کے بعد کئی منٹ تک وہ سناٹے میں رہے۔ ’دفتر کے ایک ساتھی نے مجھے جھنجوڑا اور تب مجھے ہوش آیا کہ میں اپنے پیاروں کو کھو چکا ہوں‘۔

کراچی پہنچ کر جب اپنے پیاروں کی تلاش شروع کرتے ہیں تو وہ معاملہ حادثے سے بڑھ کر سانحہ ثابت ہوتا ہے۔ ’ایک رضا کار نے تھیلی میں موجود لاش کے چند ٹکڑے دکھائے تو ہاتھ کی انگوٹھی جوکہ ایک رات قبل اپنی بیوی کو تحفہ دی تھی سے اس کی پہچان ہوئی۔ ایک رضا کار نے مجھے کہا کہ میں آپ بیٹی کی شناخت میں مدد کرتا ہوں۔ میری بیٹی کی لاش بھی مکمل تھی۔ اس نے آگ سے بچنے کے لیے اپنے دونوں ہاتھ سے چہرہ چھپایا ہوا تھا۔ اور اسی حالت میں وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملی، آگ کی وجہ سے اس کے کپڑوں کا رنگ ماند پڑ گیا تھا۔ اسی طرح حادثے کے چند روز بعد میرے بیٹے کی لاش کی شناخت ہوئی۔ بڑی جدوجہد کے بعد اپنے اہل خانہ کے جسد خاکی جمع کرنے کے بعد تدفین کا عمل مکمل کیا تو زندگی کو کسی قدر سکون حاصل ہوا‘۔

عارف کا کہنا تھا کہ حادثے کے 2 ماہ بعد تک وہ کراچی میں رکے رہے اور طیارہ حادثے کے لواحقین کی معاونت کرتے رہے اور ابھی تک اسی مشن پر لگے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کی تکلیف اور دکھ کو کم کرکے مجھے اپنا دکھ بھلانے میں بہت مدد ملی اور اب مجھے یقین ہے کہ میری بیوی اور بچے ایک اچھی جگہ پر ہیں‘۔

حادثے کے فوری بعد ہی پی آئی اے انتظامیہ اور جاں بحق مسافروں کے لواحقین کے درمیان زر تلافی پر ایک تنازع شروع ہوگیا۔ پی آئی اے انتظامیہ نے لواحقین کے گھروں پر وکلا کی ٹیم بھیج کر ان سے آر ڈی اے (ریلیز اینڈ ڈسچارج ایگریمنٹ) پر دستخط کروانے کی کوشش کی۔ جس کے تحت مسافروں کے اہل خانہ ایک کروڑ روپے لے کر باقی قانونی کارروائی نہیں کریں گے۔ جس پر اعتراضات کے باوجود بعض اہل خانہ نے مالی دشواریوں کے سبب آر ڈی اے پر دستخط کر کے یہ زر تلافی قبول کرلیا۔

اس حوالے سے پی آئی اے کے ترجمان عبدالحفیظ خان نے راقم کو بتایا کہ اب تک 90 میں سے 80 لواحقین کے اہل خانہ کو ایک کروڑ 11 لاکھ روپے کی زرتلافی کی رقم ادا کی جاچکی ہے۔ جس میں ایک کروڑ روپے انشورنس کی مد میں، دس لاکھ روپے فوری ریلیف اور ایک لاکھ روپے بیگج کے نقصان کی مد میں گورنر سندھ کی ایما پر فراہم کیے ہیں۔

اس طیارہ حادثے کا شکار ہونے والی نیلم برکت علی کی والدہ اور چھوٹی بہن آج بھی اس کو یاد کر کے آبدیدہ ہوجاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ ’نیلم ان کے گھر کی واحد کفیل تھی۔ اس کے جانے کے بعد ہمیں شدید مالی مشکلات نے گھیر لیا اور مجبوراً آر ڈی اے پر دستخط کر کے رقم وصول کی‘۔ مگر وہ پی آئی اے انتظامیہ کے رویئے سے سخت نالاں ہیں۔

اسی طرح زارا عابد ایک اداکارہ اور ماڈل تھیں وہ بھی عید سے قبل اپنی شوٹ مکمل کرکے کراچی آرہی تھیں کہ حادثے کا شکار ہوئیں۔ زارا بھی اپنے گھر کی واحد کفیل تھیں۔ ان کی والدہ تنظیم جمال بھی کہتی ہیں کہ ’مجبوراً آر ڈی اے پر دستخط کرنا پڑے ہیں‘۔ بیگج کے لیے جس رقم کا اعلان کیا گیا تھا وہ انہیں نہیں ملی۔

عظمت یار خان کے بڑے بھائی مسرت یار خان اور بھتیجی نمرہ شاہد بھی اس حادثے میں جاں بحق ہوئے تھے۔ بیٹی کی موت کا سن کر نمرہ کے والد عارضہ قلب میں مبتلا ہوگئے اور ان کی سرجری کے لیے انہیں مجبوراً آر ڈی اے پر دستخط کرنا پڑے مگر ابھی تک انہوں نے اپنے بھائی مسرت یار خان کے آر ڈی اے پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

عارف اقبال فاروقی اس معاملے پر بھی پی آئی اے انتظامیہ سے سخت نالاں نظر آتے ہیں۔ ان کے مطابق ’انتظامیہ کا رویہ کافی حد تک غیرانسانی تھا۔ پی آئی اے کی انتظامیہ نے لواحقین کو اپنے پیاروں کے سامان کی شناخت کا موقع بھی نہ دیا۔ طیارے سے ملنے والی چند اشیا کو ڈسپلے کیا گیا۔ پی آئی اے حکام نے سامان کے حوالے سے خالی فارمز پر دستخط کروانے کی کوشش کی اور رینجرز نے جو سامان پی آئی اے حکام کے حوالے کیا تھا۔ اس کو بھی آج تک مسافروں کے لواحقین کو نہیں دکھایا گیا۔

’پی آئی اے انتظامیہ آر ڈی اے پر دستخط کرواکے مسافروں کے لواحقین کو ان کے جائز زر تلافی سے محروم رکھنا چاہتی ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مارش انشورنس دستاویزات کے مطابق مجموعی بین الاقوامی انشورنس کی رقم ایک ارب ڈالر تھی جس میں سے مسافروں کو مساوی رقم کی تقسیم ہونی ہے‘۔ وہ اس حوالے سے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔

طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین اس بات پر بھی غم زدہ ہیں کہ 3 سال گزرنے کے باوجود حادثے کی وجوہات سامنے نہیں آسکیں۔ اسی لیے عارف اقبال فاروقی کے ساتھ ساتھ دیگر لواحقین جیسے زارا عابد کی والدہ، نیلم برکت کی والدہ الماس، عظمت یار خان اور دیگر کا کہنا ہے کہ وہ معاوضے کی حقیقی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حادثے کی اصل وجوہات جاننے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ان سب کا مطالبہ ہے کہ وہ حقائق سامنے لائے جائیں جس کی وجہ سے ان کے چاہنے والے، ان گھروں کے روشن چراغ اور واحد کفیل ان سے جدا ہوگئے اور آئندہ کسی کو ایسا غم برداشت نہ کرنا پڑے۔

حادثے کے چند روز بعد وزیراعظم ہاؤس میں اس حوالے سے ایک اجلاس ہوا جس میں پی آئی اے کے اس وقت کے چیف ایگزیکٹو ایئر وائس مارشل ارشد ملک نے وزیر اعظم عمران خان سے شکوہ کیا کہ حادثے کے بعد مجھے دنیا بھر سے تعزیتی فون کالز اور مکتوب موصول ہوئے مگر میرے وزیر اعظم نے مجھ سے تعزیت نہیں کی جس کی وجہ سے اجلاس کا ماحول کشیدہ ہوگیا۔ اسی اجلاس میں پائلٹس کے لائسنس کا معاملہ بھی اٹھایا گیا کہ سول ایوی ایشن اس پر کوئی فیصلہ نہیں دے رہی ہے۔

حادثے کے ایک ماہ بعد ایک عبوری رپورٹ پیش کی گئی اور کاک پٹ میں ہونے والی گفتگو وزیر شہری ہوابازی غلام سرور خان سمیت دیگر حکام کو سنائی گئی۔ اس کے بعد ایک بیان تیار کیا گیا جس کو وزیر شہری ہوابازی کو قومی اسمبلی میں پڑھنے کے لیے دیا گیا۔ مگر واقفان حال کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ بیان پڑھ کر پھاڑ دیا اور کابینہ میں حادثےکی وجوہات اور پائلٹس کے رویے پر ایسی جذباتی بریفنگ دی کہ تمام کابینہ نے جعلی لائسنس والا معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

حادثے کے بعد بننے والے ماحول میں یورپی ساختہ طیارے ایئر بس پر بھی سوالات اٹھ رہے تھے۔ ایسے میں وزیر برائے ہوا بازی کے بیان نے یورپ کی توجہ اپنے طیارے کی خامی کے بجائے پاکستانی پائلٹس کے جعلی لائسنس پر مبذول کروادی اور یورپ نے پاکستانی ایئر لائنز پر پابندی عائد کردی، ساتھ ہی ساتھ پاکستان سے تربیت حاصل کرنے والے پائلٹس کو یورپ میں پرواز سے منع کردیا گیا۔ دیگر ملکوں نےپاکستانی ایئر لائنز پر پابندی تو عائد نہیں کی مگر پاکستانی پائلٹس پر پابندیاں عائد کردیں جس کی وجہ سے ہزاروں پاکستانی پائلٹس بے روز گار ہوگئے۔

اس حوالے سے پاکستان میں شہری ہوابازی کے ریگولیٹر سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان کا رابطہ کرنے پر کہنا تھا کہ پابندی پاکستان پر نہیں بلکہ پی آئی اے پر لگی ہے۔ مگر وہ یہ نہ بتاسکے کہ پی آئی اے کی جگہ ملکی نجی ایئر لائنز کو یورپ اور برطانیہ میں پرواز کرنے کی اجازت کیوں نہ ملی۔ پی آئی اے اور سول ایوی ایشن حکام کا کہنا ہے کہ دنوں طرف سے اقدامات کر لیے ہیں۔ جلد پابندی ہٹنے کا امکان ہے۔ سول ایوی ایشن حکام کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے نیا سول ایوی ایشن ایکٹ بھی تیار کر لیا گیا ہے جس کے نفاذ کے بعد یورپی یونین اور برطانوی سول ایوی ایشن حکام پاکستان کا دورہ کریں گے۔ اور پابندی ہٹنے کا امکان ہے۔

وفاقی وزیر برائے شہری ہوابازی کے بیان کی گونج ملکی ایوی ایشن صنعت میں تاحال سنائی دے رہی ہے۔ اس حوالے سے ترجمان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے راقم کو آگاہ کیا کہ کسی پائلٹ کا لائسنس جعلی نہیں تھا۔ اس وقت کے وزیر شہری ہوابازی غلام سرور خان دراصل اس بات سے آگاہ کرنا چاہ رہے تھے کہ بعض پائلٹس نے امتحانی نظام کا غلط استعمال کیا اور پائلٹس کے امتحانات کے ریکارڈ میں کچھ غلطیاں پائی گئیں۔ اس کی تحقیقات سول ایوی ایشن اتھارٹی نے سال 2018ء اور 2019ء میں مکمل کرلی تھیں۔ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ کچھ پائلٹس نے امتحانات دیتے ہوئے ناجائز طریقہ کار استعمال کیا تھا۔ ان پائلٹس کے لائسنس کو وفاقی حکومت کی ہدایت پر معطل یا منسوخ کردیا تھا۔

لیکن پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر پائلٹس کے لائسنس جعلی نہ تھے تو پھر انہیں ملازمت سے کیوں فارغ کیا گیا اور کیا وجہ ہے کہ سول ایوی ایشن نے پائلٹس کے امتحانی نظام ختم کرتے ہوئے اس کو برطانوی سول ایوی ایشن کے حوالے کردیا ہے؟ ترجمان سول ایوی ایشن اتھارٹی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین پر پابندی کے بعد سے پائلٹس کے لائسنس کے اجرا میں بعض تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ سول ایوی ایشن نے اپنے پائلٹس لائسنس ڈائریکٹوریٹ جو کہ پائلٹس کو لائسنس جاری کرتا ہے، اس کے نظام کو مزید سخت کردیا ہے، ڈائریکٹوریٹ کی 24 گھنٹے الیکٹرانک نگرانی کی جاتی ہے، کمپیوٹرز کو محفوظ کیا گیا ہے، پائلٹس کے امتحانات دفتری اوقات میں ہی لیے جاتے ہیں اور کمپیوٹرائز نتیجہ جاری کیا جاتا ہے۔

سول ایوی ایشن نے پائلٹس کے امتحانات کا عمل برطانوی سی اے اے آئی کو آؤٹ سورس کردیا ہے تاکہ نظام کو مزید بہتر بنایا جائے۔ پائلٹس لائسنس ڈائریکٹوریٹ کا غیر ملکی اداروں سے آڈٹ بھی کرایا گیا ہے جس میں نظام کو مکمل طور پر محفوظ قرار دیا گیا ہے۔

پی آئی اے سے سفر کرنا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے ایک ترجیح ہوتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہم زبان اسٹاف، براہ راست پرواز (یعنی کسی دوسری ایئرلائین سے پرواز کرنے پر پروازیں بدلنا پڑتی ہیں اور کئی کئی گھنٹے دیگر ایئر پورٹس پر انتظار کرنا پڑتا ہے) شراب نوشی کی ممانعت، اور دیگر وجوہات ہیں۔

یورپ اور برطانیہ کی پروازوں سے پی آئی اے کو اچھی خاصی آمدنی بھی ہوتی تھی۔ پی آئی اے کے ترجمان عبدالحفیظ خان کا کہنا ہے کہ یورپی اور برطانوی مارکیٹس سے پی آئی اے کی مجموعی آمدنی کا 37 فیصد حاصل ہوتا تھا۔ چونکہ گزشتہ تین سال سے پی آئی اے کی پروازیں یورپ اور برطانیہ کے لیے بند ہیں جس سے پی آئی اے کو سالانہ 60 سے 70 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے اور اب تک 100 ارب روپے سے زائد کا نقصان پی آئی اے کو ہوچکا ہے۔

مگر حقیقی طور پر وزیر موصوف کا بیان ملکی ایوی ایشن صنعت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ اس سے نہ صرف پی آئی اے کو اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے بلکہ اس سے پاکستانی میں تیار ہونے والے ایوی ایشن پروفیشنلز ( پائلٹس، ٹیکنشنز، پیسنجرز ہیڈلنگ اسٹاف اور دیگر) کو دنیا بھر میں ملازمت کے دوہرے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔

قومی پرچم بردار فضائی کمپنی کے طور پر پی آئی اے پر حادثے سے قبل اور بعد میں بھی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ مگر لواحقین کی حد تک وہ ان ذمہ داروں کو ادا کرنے اور پیاروں کو کھونے والوں کی دلجوئی کرنے میں کسی حد تک ناکام نظر آتی ہے تاہم پی آئی اے کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے نظام کو بہت حد تک بہتر کر لیا ہے۔

پی کے 8303 طیارے کے حادثے کی اہم وجوہات میں طیارے کی لینڈنگ پوزیشن لیتے وقت مقررہ حد سے زائد رفتار اور حد سے زائد بلندی شامل تھی۔ جس کو ایوی ایشن کی زبان میں ہاٹ اینڈ ہائی (hot and high ) کہا جاتا ہے۔ اس صورت حال کو رفتار سے سمجھنا ہوگا۔ اگر آپ گاڑی چلا رہے ہوں تو روکنے سے قبل گاڑی کی رفتار بتدریج کم کرتے ہیں۔ اگر اچانک رفتار کم کی جائے تو گاڑی کو بری طرح دھچکا لگتا ہے۔

پی آئی اے نے ایک اندرونی طور پر سیفٹی پروگرام مرتب کیا تھا۔ جس میں طیارہ ساز کمپنی بوئنگ اور ایئر بس کی معاونت سے مختلف نوعیت کے ڈیٹا پیرا میٹرز کو سیٹ کیا گیا تھا تاکہ یہ دیکھا جائے کہ طیارے، پائلٹ اور وہ مقام یا ایئر پورٹ جہاں طیارے لیڈنگ اور ٹیک آف کررہے ہیں وہاں پر کیا ان پیرا میٹرز کے اندر رہ کر کام ہورہا ہے یا پھر کہیں معیاری کارکردگی کے برخلاف کام ہورہا ہے۔ مگر اس سسٹم کے ہوتے ہوئے فلائٹ سیفٹی ڈپارٹمنٹ نے اس کو بند کردیا تھا۔

پی کے 8303 کے حادثے سے قبل دو اے ٹی آر طیارے ہاٹ اینڈ ہائی پوزیشن لیتے ہوئے لینڈ ہوئے تھے۔ اور دونوں طیارے حادثے کا سبب بنے مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور ان پائلٹس کے خلاف کارروائی نہ ہونے سے دیگر پائلٹس کو شہ ملی کہ وہ لاپروائی سے پرواز کریں اور یہی سبب پی کے 8303 کے حادثے کا سبب بن گیا۔

اس حادثے کے بعد انتظامیہ کو ہوش آیا اور موجودہ فلائٹ سیفٹی نظام کو دوبارہ فعال کردیا گیا ہے۔ پی آئی اے کے ترجمان کا کہنا اس حادثے کے بعد پی آئی اے نے سیفٹی مینجمنٹ سسٹم بنایا ہے جس میں بوئنگ اور ایئربس کی معاونت حاصل تھی۔ اگر کوئی ایک پائلٹ یا کسی ایئر پورٹ پر واقعات ہورہے ہوں تو یہ سسٹم ان کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ فلائٹ ڈیٹا مانیٹرنگ کا نظام بھی فعال کردیا ہے جو خطرے کی پیشگی جانچ کردیتا ہے۔

پی آئی اے پرواز پی کے 8303 کا حادثہ کئی وجوہات کی بنا پر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں جاں بحق افراد کے اہل خانہ کو ادا کیے جانے والے زرتلافی، حادثے کے بعد ریاست اور ایئرلائین کے رویے، پی آئی اے کے پائلٹس کے لائسنس کے حوالے سے بیان، یورپی یونین اور برطانیہ کی پی آئی اے پر پابندی اور سب سے بڑھ کر بطور قوم عالمی سطح پر اٹھائی جانے والی شرمندگی کہ پاکستانی پائلٹس یورپی فضاوں میں طیارے نہیں اڑاسکتے ہیں جیسے کئی پہلو ہیں۔ قومی سطح پر ایوی ایشن کی صنعت کو بہتر بناتے ہوئے پاکستان دنیا کی فضاؤں پر چھا سکتا ہے لیکن اس کے لیے انتھک محنت کرنا ہوگی۔


ہیڈر: اے ایف پی

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔