پاکستان کی قدرتی آفات کے عالمی فنڈ کو موسمیاتی تبدیلی کے فنڈز سے علیحدہ کرنے کی تجویز
پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک مختص فنڈ قائم کرے کیونکہ اقوام متحدہ نے ایسی آفات پر عالمی ردعمل کو کمزور اور ناکافی قرار دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی خطرات عالمی ہیں اور یہ عالمی مقاصد اور عالمی کامیابی کی ضمانت دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان اقوام متحدہ کے تحت عالمی اور علاقائی اقدامات کی مالی اعانت کے لیے عالمی آفات کے خطرے میں کمی کے ایک وقف فنڈ کی تجویز پیش کرتا ہے۔‘
ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کے سینڈائی فریم ورک کے اس اعلیٰ سطح کے وسط مدتی جائزے میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے جنرل انعام حیدر ملک نے کہا کہ یہ فنڈ ’ماحولیاتی سے متعلق فنانسنگ ونڈوز سے الگ ہونا چاہیے۔‘
یہ فریم ورک افہام و تفہیم، انتظام، سرمایہ کاری اور تیاری کے ذریعے نئی تباہیوں کو روکنے اور موجودہ آفات کے خطرات کو کم کرنے کے اہداف اور ترجیحات کا خاکہ پیش کرتا ہے۔
یہ بحالی اور تعمیر نو کے کاموں کے طریقہ کار کو مضبوط بنانے کی بھی تجویز کرتا ہے۔
مذکورہ فریم ورک کو 18 مارچ 2015 کو جاپان کے سینڈائی میں تباہی کے خطرے میں کمی پر اقوام متحدہ کی تیسری عالمی کانفرنس میں اپنایا گیا تھا اور اس کا مقصد 2030 تک اپنے اہداف حاصل کرنا ہے۔
جنرل انعام حیدر نے عالمی رہنماؤں کے اجتماع کو بتایا کہ پاکستان کو گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب کے بعد بحالی اور تعمیر نو کے چیلنج کا سامنا ہے جس میں 3 کروڑ افراد متاثر ہوئے، ایک ہزار 740 جانیں گئیں اور 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ’اپنے بھاری مالی چیلنجز کے باوجود پاکستان نے اس بے مثال آفت سے نمٹنے کے لیے شاندار عزم کا مظاہرہ کیا۔‘
قبل ازیں جمعرات کو اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل آمنہ محمد نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کی جانب عالمی پیش رفت ’کمزور اور ناکافی رہی ہے‘ اور فریم ورک 2030 کے اپنے اہداف پورے کرنے سے رہ سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے آفات کے خطرات میں کمی (یو این ڈی آر آر) کے مطابق 2015 سے آفات سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں 80 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل نے اجتماع کو یاد دلایا کہ خطرے کا انتظام ایک آپشن نہیں بلکہ ایک عالمی عزم ہے، ہماری دنیا تاریخ کے ایک اہم موڑ پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم 2030 کے آدھے راستے پر اپنے سفر کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ترقی کمزور اور ناکافی رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ ممالک نے موسمیاتی اور پائیدار ترقی کے وعدوں کو پورا نہیں کیا اس لیے قدرتی آفات جن کو روکا جا سکتا تھا اس میں لاکھوں جانیں گئیں، لاکھوں دربدر ہوئے جس میں بچے اور خواتین سب سے زیادہ خطرات کا شکار ہیں۔