پاکستان

مردم شماری میں ہر توسیع کے ساتھ کراچی کی آبادی میں اضافے پر ماہرین کا شکوک و شبہات کا اظہار

رمضان میں مردم شماری کرنا غلط تھا کیوں کہ ہر شکایت کے جواب میں حکام کا کہنا تھا کہ کارکن رمضان کی وجہ سے تھک گئے اور ہر گھر کی گنتی نہیں کر سکتے، ماہرین

مردم شماری کی آخری تاریخ میں ہر ایک توسیع کے ساتھ کراچی کی آبادی میں اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ عمل ناقص تھا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک نسلی اور سیاسی تنازعات میں گھرا ہوا ہے اور منصفانہ اور شفاف مردم شماری کا انعقاد مشکل ہے، جب تک کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہوں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ نکتہ ’مردم شماری کے نتائج؛ ایک جائزہ‘ کے عنوان سے ہونے والے مباحثے کے اہم نکات میں شامل تھا جو اربن ریسورس سینٹر میں ماہرین کے درمیان منعقد ہوا۔

شرکا نے مردم شماری کے دوران عوام کی جانب سے بتائے گئے مسائل پر روشنی ڈالی اور مستقبل میں ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنی تجاویز دیں۔

مقررین میں معروف ماہر تعمیرات اور سماجی محقق عارف حسن، ماہر معاشیات اور ماہر آبادیات ڈاکٹر عاصم بشیر اور شہری منصوبہ ساز محمد توحید شامل تھے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے عارف حسن نے کہا کہ ملک میں نسلی اور سیاسی تنازعات ہیں اور موجودہ صورتحال میں منصفانہ اور شفاف مردم شماری مشکل ہے اور مستقبل میں بھی کرانا مشکل رہے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ واقعی مردم شماری کے بارے میں منصفانہ ہونا چاہتے ہیں تو تمام اسٹیک ہولڈرز کو اسے منصفانہ طریقے سے کرنے پر متفق ہونا پڑے گا۔

ڈاکٹر عاصم بشیر نے کہا کہ مردم شماری کے دوران کوتاہی کا رجحان تھا جو جان بوجھ کر اور منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 2017 کی مردم شماری پر پہلے ہی لوگوں کا نقطہ نظر منفی تھا، سیاسی جماعتوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور مردم شماری کے نتائج کے اعلان سے پہلے ہی انہوں نے اسے مسترد کر دیا اور اسے ’دھوکا دہی اور غیر منصفانہ‘ قرار دینا شروع کر دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتیں اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں اور انہیں ایسا کام نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ آبادی کی تعداد میں اضافہ صوبوں کے لیے اہم ہے کیونکہ پاکستان میں وسائل کی تقسیم آبادی پر مبنی ہے، پاکستان میں آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم (نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ میں) 82 فیصد ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر صوبہ چاہتا ہے کہ اس کی آبادی زیادہ سے زیادہ گنی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کے ایک ہی فارمولے کی وجہ سے بھارت میں بھی ایسا ہی مسئلہ موجود تھا، جس نے وہاں بہت زیادہ مسائل پیدا کردیے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہر صوبے کا حصہ نمایاں طور پر ایڈجسٹ کیا گیا اور مسئلہ بہت حد تک حل ہو گیا۔

محمد توحید نے سوالنامے میں کئی خامیوں اور مسائل کی نشاندہی کی جو مردم شماری کے عمل کے دوران استعمال کیے گئے تھے، سب سے بڑا مسئلہ جو انہوں نے دوسرے شرکا کے ساتھ اٹھایا، وہ گھر کی تعریف تھا، جس کی کوئی مقررہ اور واضح تعریف نہیں ہے۔

مردم شماری کا کام کرنے والے لوگوں کے پاس بھی اس کی کوئی تعریف نہیں، کچھ لوگوں کے لیے ایک باورچی خانہ ایک خاندان/گھر والوں کے لیے ہوتا ہے چاہے وہ دو یا تین شادی شدہ جوڑے ہی کیوں نہ ہو، لہٰذا اگر انہیں ایک خاندان/گھر کے طور پر شمار کیا جائے تو یہ آبادی کی گنتی پر بڑا اثر ڈالے گا۔

مردم شماری کا وقت

گنتی کے عمل کا وقت بھی تنقید کی زد میں آیا اور محمد توحید نے کہا کہ اقوام متحدہ کے رہنما خطوط کے مطابق جب مردم شماری کی جاتی ہے تو وقت بھی بہت اہم عنصر ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لیے اس مشق کے لیے رمضان کا مہینہ اچھا انتخاب نہیں تھا، مختلف شکایات کے جواب میں حکام کی جانب سے کہا گیا کہ مردم شماری میں شامل کارکن رمضان کی وجہ سے تھک چکے ہیں اس لیے ہر گھر کی گنتی نہیں کر سکتے۔

محمد توحید نے سوال کیا کہ یہ کس قسم کا ناقص عمل ہے کہ ہر ایک توسیع کے ساتھ شہر کی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر اسے مزید توسیع دی جاتی ہے تو بہت امکان ہے کہ آبادی کی گنتی اس تک پہنچ جائے گی جس پر لوگ بحث کر رہے ہیں۔

سیاسی تعطل ختم کرنے کیلئے پلڈاٹ کا فریقین سے مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے کا مطالبہ

اگلے 5 سال انسانی تاریخ کا گرم ترین دور ہوگا، اقوام متحدہ نے خبردار کردیا

امام بارگاہ کے متولی بیٹے کے قتل کے ایک ہفتے بعد ڈاکوؤں کی فائرنگ سے جاں بحق