’پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل نہ کیا تو پاکستان کو 18ارب ڈالر جرمانہ ادا کرنا ہو گا‘
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پاکستان نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل نہ کیا تو پاکستان کو 18 ارب ڈالر کا بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اگر امریکا، پاکستان اور ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنے کی منظوری نہیں دیتا، تو اسے جرمانہ ادا کرنا چاہیے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ امریکا کو دوہرے معیارات کو ختم کرنا ہو گا، وہ بھارت کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو اسی چیز کی سزا دے رہا ہے۔
یہ مشاہدہ اس وقت سامنے آیا جب وزارت خارجہ نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا گیا کہ امریکا سے واپسی کے بعد امریکی سفیر سے ملاقات کا اہتمام کیا جائے گا۔
یہ خط یکم مارچ کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی بات چیت سے پیدا ہونے والی تشویش کے جواب لکھا گیا تھا۔
وزارت نے کہا کہ ابھرتی ہوئی علاقائی صورتحال میں ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کی اہمیت کے پیش نظر یہ وزارت تمام ممکنہ آپشنز پر غور کررہی ہے جس میں ایران اور امریکا سمیت متعلقہ فریقوں کے ساتھ قریبی روابط اور بامعنی تبادلے شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں پیٹرولیم ڈویژن کی ایک تکنیکی ٹیم نے جنوری میں تہران کا دورہ کیا تاکہ آئی پی گیس پراجیکٹ کے فروغ کے طریقوں اور ذرائع پر تبادلہ خیال کیا جا سکے، وزیر اعظم کے دفتر نے تمام اسٹیک ہولڈرز کی بین الوزارتی اجلاس اور آئی پی گیس پائپ لائن منصوبے پر آگے بڑھنے کے لیے ایکشن پلان پر اتفاق کیا ہے۔
روس سے پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری سے متعلق سوال کے جواب میں وزارت خارجہ نے کہا کہ ماسکو کے ساتھ خام تیل کے ٹیسٹ کارگو کی خریداری کے لیے معاہدہ کیا گیا ہے جو جلد پاکستان پہنچ جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پاک اسٹریم پائپ لائن منصوبے کے لیے پرعزم ہے، دونوں فریق بقایا مسائل پر بات چیت کر رہے ہیں۔
پیٹرولیم فرموں سے رقم کی وصولی
کمیٹی نے وزارت کو ہدایت کی کہ وہ دو پیٹرولیم کمپنیوں کی جانب سے کیے گئے ’غبن کی رقم‘ کی وصولی کرے جس نے نجی سرمایہ کاروں اور قومی خزانے کو بڑا نقصان پہنچایا۔
دو کمپنیوں بائیکو اور ہیسکول نے ابھی تک عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس نہیں کیا ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ارکان یہ جان کر حیران رہ گئے کہ دونوں فرموں کے مالکان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جانے کے باوجود وہ ملک چھوڑنے میں کامیاب ہو گئے، اجلاس کو بتایا گیا کہ بائیکو کے قومی خزانے پر 57 ارب روپے واجب الادا ہیں تاہم اب تک صرف 3.9 ارب روپے کی وصولی ہوئی ہے۔
معمولی ریکوری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نور عالم خان نے مشاہدہ کیا کہ کمیٹی پیٹرولیم ڈویژن کو پہلے ہی ہدایت کر چکی ہے کہ غبن کی گئی رقم کی وصولی میں نرمی نہ برتی جائے لیکن وہ نادہندگان سے بات چیت کر رہے ہیں۔
نور عالم نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو ہدایت کی کہ بائیکو کے مالک کو گرفتار کرکے ان کی جائیدادیں ضبط کی جائیں اور غبن کی گئی رقم کی وصولی کے لیے اس کے اثاثے فروخت کریں۔
ایک اور ہدایت کے ذریعے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وزارت پیٹرولیم سے کہا کہ وہ غریبوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے گیس کے بلوں سے ایڈجسٹمنٹ فیس کی مد میں لیے جانے والے 500 روپے سے دستبردار ہو جائے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نئے گیس میٹروں کی تنصیب پر پابندی کو واپس لینے کی بھی تجویز پیش کی کیونکہ اس سے چوری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
نور عالم خان نے آڈیٹر جنرل کے دفتر کو ہدایت کی کہ صدر، وزیراعظم، وفاقی وزرا اور بیوروکریٹس کو دی جانے والی مراعات کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ آڈیٹر جنرل نے ابھی تک مسلح افواج کے سینئر افسران کی تنخواہوں اور مراعات کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کیں۔