پاکستان

بجٹ کو حتمی شکل دینے کیلئے اہم اجلاسوں کے انعقاد پر غور

اگلے مالی سال میں ترقیاتی بجٹ کیلئے 900 ارب سے زائد، سبسڈیز کی مد میں 10 کھرب، دفاعی اخراجات کیلئے 17 کھرب سے زائد رکھے جانے کا امکان ہے۔

اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کرنے میں ایک مہینے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے تاہم حکومت سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی اور قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس 23 مئی اور یکم جون کو منعقد کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ 900 ارب روپے کے ترقیاتی پروگرام کو حتمی شکل دی جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل وفاقی حکومت رواں ہفتے 2 اہم اجلاس منعقد کرے گی۔

جس میں نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس بھی شامل ہے تاکہ رواں برس مختلف معاشی شعبوں کی کارکردگی کے حوالے سے اعداد و شمار کو حتمی شکل دی جاسکے۔

وفاقی کابینہ کا ایک اور خصوصی اجلاس آئندہ مالی سال کی بجٹ حکمت عملی کے لیے ہوگا، جس میں 10 کھرب روپے سے زائد کی سبسڈیز (زیادہ تر توانائی کے شعبے کے لیے)، تقریباً 3.5 فیصد جی ڈی پی کی شرح نمو، تقریباً 21 فیصد مہنگائی جبکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے لیے ٹیکس وصولی کا ہدف 90 کھرب روپے رکھے جانے کی منظوری دی جائے گی۔

رواں برس کے ٹیکس اہداف میں پہلے ہی تقریباً 400 ارب روپے کمی کا سامنا ہے، نان ٹیکس ریونیو کا تخمینہ 25 کھرب سے زائد کا لگایا گیا ہے، جس میں سب سے زیادہ حصہ مرکزی بینک کے نفع کا 900 ارب ہے، اس کے بعد پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کی مد میں 800 ارب روپے ہونے کی توقع ہے۔

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے گزشتہ ہفتے باضابطہ طور پر اعلان کیا تھا کہ مالی سال 24-2023 کا بجٹ 9 جون کو پیش کیا جائے گا۔

پبلک فنانس منیجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت حکومت کو بجٹ حکمت عملی پیپر 15 اپریل سے قبل وفاقی کابینہ سے منظوری لینے کی ضرورت ہے تاہم ملک میں جاری سیاسی بحران اور معطل آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج کی وجہ سے ایسا نہیں کیا جاسکا۔

حکام نے کہا کہ معاشی فیصلے کرنے والے اعلیٰ سطح کی قومی اکنامک کونسل کا اجلاس یکم یا 2 جون کو منعقد کیا جائے گا۔

کونسل کی سربراہی وزیر اعظم کرتے ہیں اور اس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور وفاقی وزرا شریک ہوتے ہیں جبکہ وزیراعظم آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ بطور خصوصی مہمان شرکت کرتے ہیں۔

پلاننگ کمیشن حکام نے بتایا کہ وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے 900 ارب روپے کا بجٹ حتمی نہیں ہے، اس حوالے سے پیر (آج) وزارت منصوبہ بندی اور خزانہ کے اجلاس میں حتمی مشاورت متوقع ہے۔

حکام نے بتایا کہ وزیر منصوبہ بندی اور ان کی ٹیم نے گزشتہ ہفتے وزیر اعظم کو اگلے سال کی ترقیاتی ترجیحات اور حکمت عملی کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی تھی۔

دوسری طرف وزارت خزانہ اپنے بجٹ حکمت عملی پیپر میں مالی اور بیرونی کھاتوں کی حدود کی ساتھ ساتھ سیلاب، ناموافق عالمی اقتصادی ماحول اور اندرون ملک سخت پالیسیوں کی وجہ سے رواں برس اقتصادی پیداوار میں 0.5 سے 0.6 فیصد اضافے کے مقابلے میں 21 فیصد سے زائد متوقع افراط زر اور 3.4-3.5 فیصد کی معاشی نمو کے تخمینے میں رکاوٹوں کو روکنے کی وضاحت کرے گی۔

رواں برس معاشی شرح نمو کا تخمینہ 5 فیصد لگایا گیا تھا، جس میں صنعت کا 7.1، زراعت کا 3.9 فیصد اور خدمات کے شعبے سے 5.1 فیصد اضافے کا تخمینہ تھا۔

حالیہ صورتحال کے تناظر میں اگلے مالی سال ترقیاتی بجٹ 900 ارب سے زائد، سبسڈیز کی مد میں 10 کھرب، دفاعی اخراجات کے لیے 17 کھرب سے تھوڑی زیادہ رقم اور قرض کی ادائیگی کے لیے 76 کھرب 50 ارب رکھے جانے کا امکان ہے۔

لہٰذا وفاقی مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 6.5 فیصد (تقریباً 70 کھرب) کے قریب رہ سکتا ہے جبکہ مجموعی مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے تقریباً 5.2 فیصد (50 کھرب سے زائد) پر لایا جائے گا۔

اس کے لیے صوبوں سے جی ڈی پی کے 1.3 فیصد سرپلس کی امید کی گئی ہے جو کہ رواں سال کے تخمینے سے ایک فیصد سے کچھ کم ہے، پرائمری بجٹ سرپلس کا تخمینہ جی ڈی پی کے 0.3 فیصد رکھا گیا ہے جو رواں برس 0.2 فیصد ہے۔

پنجاب انتخابات: امید کرتے ہیں مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے اور کوئی حل نکل آئے گا، چیف جسٹس

نامور اداکار عماد عرفانی کے بیٹے انتقال کرگئے

مردم شماری کا آج اختتام، ملک کی آبادی 24 کروڑ 65 لاکھ تک پہنچ گئی