ترکیہ میں صدارتی و پارلیمانی انتخابات آج ہوں گے، کڑا مقابلہ متوقع
ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی عام انتخابات آج ہوں گے جہاں حریف سیاسی جماعتوں کے درمیان کڑے مقابلے کی توقع ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان نے آج ہونے والے انتخابات میں اپنے سیکولر حریف کے خلاف لڑائی سے قبل گزشتہ روز استنبول کی مشہور مسجد آیا صوفیہ میں نماز کی امامت کی۔
طیب اردوان کو ریٹائرڈ سرکاری ملازم کمال قلیچ دار اوغلو اور ان کے 6 جماعتی اتحاد سے زیادہ متحرک یا متحد اپوزیشن کا سامنا کبھی نہیں ہوا۔
ترکیہ کے معاشی چیلنجز کے پیش نظر، حزب اختلاف کی 6 جماعتوں نے اپنے سیاسی اور ثقافتی اختلافات کو ایک طرف رکھ دیا ہے اور طیب اردوان کو انتخابی میدان میں شکست دینے کے لیے متحد ہو گئی ہیں، ان 6 جماعتوں کو ترکیہ کی کرد نواز پارٹی کی حمایت حاصل ہے، یہ ایک ایسا گروپ جس کے پاس تقریباً 10 فیصد ووٹ بینک ہے۔
50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے کے لیے پرعزم کمال قلیچ دار اوغلو نے انقرہ میں ایک ریلی کے دوران شرکا سے خاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ اس ملک میں جمہوریت لانے کے لیے تیار ہیں؟ اس ملک میں امن لانے کے لیے تیار ہیں؟ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں بھی تیار ہوں۔
دوسری جانب طیب اردوان سے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران سوال کیا گیا کہ اگر وہ ہار گئے تو وہ کیا کریں گے، انہوں نے جواب دیا کہ ہم اپنے عوام کی مرضی سے جمہوری طریقے سے ترکی میں اقتدار میں آئے، اگر ہمارے لوگ اپنی رائے بدلتے ہیں تو ہم وہی کریں گے جو جمہوریت کا تقاضہ ہے۔
انتخانی مہم کے لیے طیب اردوان نے آیا صوفیہ کا رخ کیا جسے انہوں نے عثمانی دور کے بعد کے سیکولر دور میں مصطفیٰ کمال اتاترک کی جانب سے عجائب گھر میں تبدیل کیے جانے کے تقریباً ایک صدی کے بعد مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔
سال 2020 میں اسے دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کے اس فیصلے نے مذہبی حلقوں میں طیب اردوان کی پذیرائی کو مزید مستحکم کردیا اور ان کی حکمرانی پر مغربی ممالک کی بے چینی میں اضافہ کیا۔
اس حوالے سے طیب اردوان نے گزشتہ روز استنبول میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پورا مغرب بلبلا اٹھا لیکن میں نے یہ کر دکھایا، تقریر کے دوران انہوں نے اپنے قدامت پسند اور قوم پرست ووٹ بینک کو مستحکم کرنے کے لیے مذہبی موضوعات اور ثقافتی جنگوں کا حوالہ دیا۔
تاہم آج ہونے والی ووٹنگ میں جنوب مشرقی علاقے بھی شامل ہوں گے جو فروری میں آنے والے زلزلے کے نتیجے میں کھنڈرات کی صورت اختیار کرچکے ہیں، اس زلزلے کے نتیجے میں ترکیہ میں 50 ہزار سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، یہ عام طور پر اردوان کے حامی علاقے تصور کیے جاتے ہیں تاہم موجودہ صورتحال کے سبب یہاں کے لوگوں میں پائے جانے والا غصہ آج ہونے والے انتخابات کے نتائج پر اثرانداز بھی ہوسکتا ہے۔