عمران خان نے اپنی گرفتاری کا الزام آرمی چیف پر عائد کردیا
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے 9 مئی کو اپنے ’اغوا‘ کا الزام آرمی چیف پر عائد کردیا، ساتھ ہی گرفتاری کے بعد کئی شہروں میں ہونے والے ہنگاموں سے لاتعلقی اختیار کرلی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں صحافیوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
وقفے کے دوران بی بی سی کی نامہ نگار کیرولین ڈیوس نے جب ان سے اس تاثر کے بارے میں سوال کیا کہ سیکیورٹی ایجنسیاں ان کے خلاف ہیں جبکہ عدلیہ ان کی حمایت کر رہی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سیکیورٹی ایجنسیاں نہیں ہیں، یہ ایک آدمی ہے، آرمی چیف‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’فوج میں جمہوریت نہیں ہے، جو کچھ ہو رہا ہے اس سے فوج کو بدنام کیا جا رہا ہے‘۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ’وہ (آرمی چیف) پریشان ہیں کہ اگر میں اقتدار میں آیا تو میں انہیں ڈی نوٹیفائی کر دوں گا، جس پر میں نے انہیں پیغام بھیجنے کی پوری کوشش کی ہے کہ میں نہیں کروں گا‘۔
عمران خان نے کہا کہ ’یہ سب براہ راست اس کے حکم سے ہو رہا ہے، وہ وہی ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اگر میں جیت گیا تو اسے ڈی نوٹیفائی کر دیا جائے گا‘۔
سابق وزیر اعظم نے حکومت کی جانب سے اپنی پارٹی کو ’نشانہ بنائے جانے‘ کے بارے میں بھی بات کی اور الزام لگایا کہ ’گزشتہ ایک سال کے دوران 5 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ وہ دو قاتلانہ حملوں میں بچ گئے تھے اور انہوں نے صرف تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، افسوس ہے کہ ان کا مطالبہ مسترد کر دیا گیا۔
انڈیپنڈنٹ اردو کی نامہ نگار قرۃ العین شیرازی نے سوال کیا کہ انہیں سپریم کورٹ سے وہ ریلیف ملا ہے جو کسی اور سیاستدان کو نہیں دیا گیا جس پر عمران خان نے کہا کہ جب وہ عدالت میں بیٹھے ہیں تو اسے ریلیف کیسے کہا جا سکتا ہے۔
جب وہ نیب کی حراست میں تھے تو اس دوران پیش آنے والے واقعات پر ’افسوس‘ کا اظہار کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ ’صرف ایک آدمی کی وجہ سے فوج کی بدنامی ہو رہی ہے‘۔
غیر رسمی بات چیت کے دوران عمران خان نے الزام لگایا کہ گرفتاری کے وقت ان پر تشدد کیا گیا اور ان کے سر پر ڈنڈے سے مارا گیا، تاہم انہوں نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی تحویل کے دوران اپنے ساتھ کیے گئے سلوک کو ’منصفانہ‘ قرار دیا۔
عمران خان نے کہا کہ ان کی گرفتاری کے بعد جو کچھ ہوا وہ ان کے قابو سے باہر تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے جیو کے رپورٹر اعزاز سید سے پارٹی رہنما مسرت جمشید چیمہ کے ساتھ اپنی لیک ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کے بارے میں بھی بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے گرفتاری کے بعد لینڈ لائن نمبر سے کال کی تھی کیونکہ عدالت نے انہیں اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی سے بات کرنے کی اجازت دی تھی۔
جب رپورٹر نے ایک اور سوال کیا کہ انہوں نے اپنی اہلیہ سے بات کرنے کے بجائے پی ٹی آئی کے رکن سے بات کیوں کی تو عمران خان نے کہا کہ انہوں نے مسرت چیمہ کو فون کیا کیونکہ ان کی اہلیہ سے رابطہ نہیں ہوسکا تھا۔
پی ٹی آئی کے سربراہ نے اس وقت کچھ دلچسپ تبصرے کیے جب ان کا سینئر صحافی مطیع اللہ جان سے آمنا سامنا ہوا، جو پی ٹی آئی حکومت کی پالیسیوں کے سخت ناقد ہیں اور اس وقت زیادہ مشہور ہوئے تھے جب عمران خان کے دورِ اقتدار میں انہیں اسلام آباد سے نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا تھا۔
عمران خان نے صحافی کو بتایا کہ جب انہیں صحافی کے اغوا کے بارے میں علم ہوا تو انہوں نے بطور وزیر اعظم کابینہ کے اجلاس کے دوران ان کی فوری رہائی کا حکم دیا تھا۔