نقطہ نظر

بلوچستان میں چائلڈ لیبر کی شرح کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟

آئین میں موجود تمام ممانعت کے باوجود کم عمر بچے گاڑیوں کی ورکشاپ اور دیگر جگہوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔

13 سالہ عامر* بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر تربت میں گاڑیوں کے گیراج میں کام کرتا ہے۔ تعلیم کے حصول کے اپنے خواب کے باوجود وہ بلوچستان میں تیزی سے پھیلتی ہوئی چائلڈ لیبر کی لہر کا شکار ہوگیا۔ یہ بچے دن میں ایک وقت کے کھانے کے لیے رات گئے تک محنت مزدوری کرتے ہیں۔

عامر بتاتا ہے کہ ’میں صبح سویرے اُٹھ کر گیراج میں کام کرنے جاتا ہوں تاکہ اپنے خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کچھ رقم کما سکوں۔ میں شام میں بہت تاخیر سے تھکا ہارا گھر لوٹتا ہوں۔ غربت میں زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہے۔ بعض اوقات ہم اتنی تنگ دستی میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں بنیادی ضرورت کی اشیا تک بھی رسائی نہیں ہوتی‘۔

اس چھوٹی سی عمر میں وہ تعلیم حاصل کرنے کے بجائے اپنے خاندان کی کفالت کررہا ہے۔ بدقسمتی سے شدید غربت کا سامنا کرنے والے بچوں میں عامر اکیلا نہیں ہے۔ بلوچستان میں اس کے علاوہ اور بھی بہت سے بچے ہیں جو اسکول جانے سے محروم ہیں اور کم عمری میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔

آل پاکستان لیبر فیڈریشن کے صدر سلطان محمد کے مطابق بلوچستان میں 15 ہزار سے زائد کم عمر بچے تعمیراتی مقامات، کوئلے کی کانوں، کوڑا اٹھانے اور گاڑیوں کے گیراج میں کام کررہے ہیں۔ ان بچوں کے خوابوں کو غربت نے کچل دیا ہے اور وہ انتہائی خوفناک زندگی گزار رہے ہیں۔

چائلڈ لیبر کی بڑھتی ہوئی تعداد کی اہم وجہ ملک میں شدید غربت ہے۔کم عمری میں مزدوری کے نہ صرف معاشرے کی سماجی، اقتصادی اور ثقافتی ترقی پر منفی اثرات ہوتے ہیں بلکہ بچوں پر بھی ذہنی، جسمانی اور سماجی طور پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

کوئٹہ میں زیرِ تعلیم ذیشان ان منفی اثرات کی جانب توجہ مبذول کرتے ہیں۔

ذیشان کا کہنا ہے کہ ’غیر قانونی سرگرمیوں کے تحت بچوں کو کم عمری میں مزدوری کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور کام کرنے کے حالات بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان میں سے بہت سے بچوں کو ریڑھ کی ہڈی کے مسائل کا سامنا ہے۔

چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے محکمہ سماجی بہبود اور دیگر سرکاری اور نجی شعبے کے محکموں کی جانب سے مفت تعلیم اور بچوں کے خاندانوں میں فنڈز کی مناسب تقسیم پر زور دینے والے قوانین کا صحیح استعمال کرکے چائلڈ لیبر کے خطرے کو کسی حد تک کم کر سکتا ہے’۔

بہاد* بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک کم عمر مزدور ہے جو 13 سال کی عمر سے مستریوں کے ساتھ کام کررہا ہے۔

بہاد بتاتا ہے کہ ’میرا خاندان 4 افراد پر مشتمل ہے۔ میرے والد صاحب کا سڑک حادثے میں انتقال ہوگیا تھا جس کے بعد میں اپنے خاندان کی کفالت کرنے کا ذمہ دار تھا‘۔ دوسرے بچوں کی طرح بہاد کو بھی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش تھی لیکن مالی تنگی کی وجہ سے اس کا یہ خواب خواب ہی رہ گیا۔

صوبہ بلوچستان میں 60 فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بلوچستان نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں سب سے نیچے ہے۔ 2019- 2020ء میں ہونے والے پاکستان سوشل اینڈ لیونغ اسٹینڈرڈ سروے (پی ایس ایم ایل) کے مطابق پاکستان کی 37.8 فیصد آبادی غربت میں زندگی گزار رہی ہے اور موازنہ کرنے پر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں بلوچستان میں شرحِ غربت سب سے زیادہ ہے۔ غربت میں زندگی گزارنے والی ملک کی 10 فیصد آبادی بلوچستان میں رہائش پذیر ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد سے بلوچستان کو ہر قسم کے ترقیاتی معاملات میں نظرانداز کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں ہونے والے پوسٹ ڈیزاسٹر نِیڈ اسسمنٹ (پی ڈی این اے) سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ غربت میں رہنے والی بلوچستان کی آبادی کا تناسب 43.7 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے۔

بلوچستان میں بہت سے کم عمر بچوں کو بطور مزدور کام کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اگرچہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 11 وضع کرتا ہے کہ ’14 سال سے کم عمر کسی بھی بچے کو فیکٹری، کان یا کسی بھی خطرناک مقام پر ملازمت پر نہیں رکھا جائے گا‘۔ لیکن بدستور کم عمر بچوں کو اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

ماسٹرز کی ڈگری کے حامل صغیر احمد کا مؤقف ہے کہ شہریوں کے حقوق کا نفاذ ریاست کی ذمہ داری ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’قوانین کے مؤثر نفاذ اور آئینی حقوق کی فراہمی سے بلوچستان میں کم عمر مزدوروں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کیا جاسکتا ہے‘۔

مقامی افراد کی جانب سے دی جانے والی یہ تجاویز غلط بھی نہیں ہیں۔ پاکستان کے قوانین چائلڈ لیبر کے خلاف مذکورہ بالا جذبات کی حمایت کرتے ہیں۔

ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1997ء کے سیکشن 3 کے مطابق ’جو بھی کسی بچے کو ملازمت دیتا ہے یا مذکورہ شق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی بچے کو کام کرنے کی اجازت دیتا ہے اسے ایک سال تک کی جیل یا 20 ہزار روپے تک کے جرمانے یا دونوں سزا بیک وقت ہوسکتی ہیں‘۔

اسی طرح فیکٹریز ایکٹ 1934ء کے سیکشن 50 چھوٹے بچوں کی ملازمت کی ممانعت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ’کوئی بھی بچہ جس نے اپنا 14واں سال پورا نہ کیا ہو، اسے فیکٹری میں ملازمت پر رکھنے کی اجازت نہیں ہے‘۔ آئین کا آرٹیکل 37 بھی بچوں کو اسی طرح کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔

لیکن آئین کی ان تمام ممانعتوں کے باوجود کم عمر بچے گاڑیوں کی ورکشاپ اور دیگر جگہوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔

سمی عزیز جنہوں نے انگریزی ادب میں گریجویشن کی ہے، انہوں نے ای او ایس کو بتایا کہ ان کے ایک پڑوسی نے خاندان کی مخالفت کے باوجود اپنے بچوں کو مزدوری کرنے پر مجبور کیا۔ وہ سمجھتی ہیں کہ صوبائی حکومت کو چائلڈ لیبر کی تمام اقسام اور اس میں شامل خطرناک سرگرمیوں کو روکنے کے لیے بہتر قوانین بنانے چاہئیں۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ ’حکومت کو آرٹیکل 25 اے کو لاگو کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ان بچوں کی تعداد کو کم کیا جاسکے جو اسکول جانے سے محروم ہیں اور محنت و مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ غربت کو کم کرنے کی مشترکہ کوششوں سے کم عمری میں مزدوری کی شرح کو کم کیا جاسکتا ہے۔

وزارتِ منصوبہ بندی کے مطابق انفرااسٹرکچر اور انسانی ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرکے علاقائی تفاوت کو کم کیا جاسکتا ہے اور بلوچستان میں کم عمر مزدوروں سمیت ہر فرد کی سماجی اور اقتصادی حالت کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔

صوبے میں تعلیمی سرگرمیوں کو فرغ دے کر اور بچوں کے حقوق کا تحفظ وقت کی ضرورت ہے تاکہ چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جاسکے۔


*رازداری کی غرض سے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔


یہ مضمون 30 اپریل 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

مناج گل محمد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔